خالد علیم ۔۔۔ ترے لیے کبھی وحشت گزیدہ ہم ہی نہ تھے

ترے لیے کبھی وحشت گزیدہ ہم ہی نہ تھے
وہ دشت بھی تھا، گریباں دریدہ ہم ہی نہ تھے

لُٹے پٹے ہوئے اُن راستوں سے آتے ہوئے

یہ سب زمین تھی، آفت رسیدہ ہم ہی نہ تھے

ہمارے ساتھ کِھلے، ہم پہ مسکرانے لگے

تھے تم بھی ایک گلِ نودمیدہ، ہم ہی نہ تھے

تم ایک خواب ہوئے اور بن گئے مہتاب

فلک کی آنکھ میں اشکِ چکیدہ ہم ہی نہ تھے

بجھی ہوئی تھیں فضائیں، سُلگ رہا تھا دھواں

بہ رنگِ طائرِ رنگِ پریدہ ہم ہی نہ تھے

جھکا ہوا تھا مقدر بھی پھوٹنے کے لیے
تری نگاہ میں شاخِ خمیدہ ہم ہی نہ تھے

وہ دستِ لُطف بھی خالدکھچا کھچا سا رہا

کچھ ایسے شہر میں دامن کشیدہ ہم ہی نہ تھے

Related posts

Leave a Comment