مجھ سے چھڑوائے مرے سارے اصول اس نے ظفر کتنا چالاک تھا مارا مجھے تنہا کر کے
Read Moreشاہین عباس
ایک شکن وصال کی ، ایک شکن فراق کی سلوٹیں پڑ گئیں ہیں دو ، جامۂ دستیاب میں
Read Moreمحمد علوی
اندھوں نے بلوایا ہے بھیس بدل کر جانا ہے
Read Moreسید آلِ احمد
ناواقف و شناسا ذرا بھی نہیں لگی خوش بھی نہیں ہوئی وہ خفا بھی نہیں لگی
Read Moreمحسن اسرار
کیا رنگ لائے دیکھیے معصومیت کا دکھ ہر شخص ہی پکارتا ہے پیار سے مجھے
Read Moreعنبرین خان ۔۔۔ میری امید کا سرچشمہ ہیں آنکھیں اس کی
میری امید کا سرچشمہ ہیں آنکھیں اس کی ان سے پڑھ لیتی ہوں سب شوق کی رمزیں اس کی گل کروں کیسے یہ جلتی ہوئی شمعیں اس کی میری یادوں سے بندھی ہیں سبھی شامیں اس کی صورتِ صبحِ بہاراں ہے سراپا اس کا موجِ خوشبو کی طرح ہیں سبھی باتیں اس کی ضبط جتنا بھی کروں حوصلہ جتنا بھی رکھوں بعض اوقات رُلا دیتی ہیں یادیں اس کی میری کھڑکی سے چلی آتی ہیں خاموشی سے صبح کے نور سے پہلے ہی وہ کرنیں اس کی جس کی تابانی…
Read Moreاحمد جلیل ۔۔۔ دشتِ ویران تو اب اتنا بھی ویران نہ ہو
دشتِ ویران تو اب اتنا بھی ویران نہ ہو مجھ کو لگتا ہے کہیں گھر کا بیابان نہ ہو خود سے پہلی ہے ملاقات مری جانتا ہوں پھر بھی اے آئنے تو اتنا تو حیران نہ ہو اس میں جذبے تو دھڑکتے نہیں دیکھے میں نے غور سے دیکھ کہیں دل ترا بے جان نہ ہو خواب ایسے نہ سجانا میری ان آنکھوں میں جن کی تعبیر کا کوسوں تلک امکان نہ ہو ایسے گھر کی نہیں اب مجھ کو ضرورت کوئی زندگی کرنے کا جس میں کوئی سامان نہ…
Read Moreمسعود احمد ۔۔۔ ابھی تک مارے مارے پھر رہے ہیں
ابھی تک مارے مارے پھر رہے ہیں یہ کیسے دن ہمارے پھر رہے ہیں کسی سے جیت کر اتنے فسردہ کہ جیسے جنگ ہارے پھر رہے ہیں لگا رکھا ہے دنیا بھر کو آ گے مگر پیچھے تمہارے پھر رہے ہیں انہی پیڑوں کے نیچے بیٹھتے تھے یہیں پر لے کے آ رے پھر رہے ہیں وہیں پھر پھر پھرا کر آ گیا ہوں وہی سارے کے سارے پھر رہے ہیں منافع خور اتنا ہو چکا ہوں تعاقب میں خسارے پھر رہے ہیں کہانی عمر پوری کر چکی ہے مگر…
Read Moreشعیب عدن ۔۔۔ ہمیں بھی نقل مکانی سے خوف آتا ہے
ہمیں بھی نقل مکانی سے خوف آتا ہے جہاز ران ہیں پانی سے خوف آتا ہے کسی کسی کو پتا ہے کہ رات بھیگ چکی کسی کسی کو کہانی سے خوف آتا ہے ہماری چھت کو کسی کم نظر کی آہ لگی کہ اب تو اُٹھتی جوانی سے خوف آتا ہے میں جیسے پھیلتا جاتا ہوں اپنے چاروں طرف مجھے تو اپنی روانی سے خوف آتا ہے وہ سانپ جس کا زمانے پہ خوف طاری ہے اُسے بھی رات کی رانی سے خوف آتا ہے
Read Moreانصر حسن ۔۔۔ بدن بیکل نہ گردش میں لہو ہے
بدن بیکل نہ گردش میں لہو ہے یہ کیسا خوف میرے چار سو ہے ابھی جو دور ہے وہ روبرو ہے جو پہلو میں ہے اس کی جستجو ہے تمہارے دم سے میری زندگانی تمہارے دم سے میری آبرو ہے سمندر سے الجھتی ہے ہمیشہ یہ کتنی لا اُبالی آب جو ہے وہ تو ہے جو پسِ پردہ کھڑا ہے وہ میں ہوں سرپھرا جو کوبکو ہے ہماری بات کوئی کیا سنے گا بڑی پھیکی ہماری گفتگو ہے ہمارے دل میں ہے تصویر تیری ہماری آنکھ میں بھی تو ہی…
Read More