کہیں ٹوٹتے ہیں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت دور تک یہ جو ویران سی رہگزر ہے
جہاں دھول اڑتی ہے
صدیوں کی بے اعتنائی میں کھوئے ہوئے
قافلوں کی صدائیں ، بھٹکتی ہوئی
پھر رہی ہیں درختوں میں ۔۔۔۔
آنسو ہیں
صحراؤں کی خامشی ہے
اُدھڑتے ہوے خواب ہیں
اور ہواؤں میں اڑتے ہوے خشک پتے ۔۔۔
کہیں ٹھوکریں ہیں
صدائیں ہیں
افسوں ہے سمتوں کا ۔۔۔
حدِ نظر تک یہ تاریک سا جو کرہ ہے
اُفق تا اُفق جو گھنیری ردا ہے
جہاں آنکھ میں تیرتے ہیں زمانے
کہ ہم ڈوبتے ہیں ۔۔۔!
تو اس میں تعلق ہی وہ روشنی ہے
جو جینے کا رستہ دکھاتی ہے ہم کو
سو، کاندھوں پہ ہاتھوں کا لمسِ گریزاں ہی
ہونے کا مفہوم ہے غالباً ۔۔۔
وگرنہ وہی رات ہے چار سو
جس میں ، ہم تم بھٹکتے ہیں
اور لڑکھڑاتے ہیں، گرتے ہیں
اور آسماں، ہاتھ اپنے بڑھا کر
کہیں ٹانک دیتا ہے ہم کو
کہیں پھر چمکتے
کہیں ٹوٹتے ہیں ۔۔۔!