جوش ملسیانی ۔۔۔۔۔ سلامِ شوق پر کیوں دل کی حیرانی نہیں جاتی

سلامِ شوق پر کیوں دل کی حیرانی نہیں جاتی
بڑے انجان ہو، صورت بھی پہچانی نہیں جاتی

سبک دوشِ مصائب زندگی میں کون ہوتا ہے
قضا جب تک نہیں آتی، گراں جانی نہیں جاتی

نہیں ہوتا، کسی سے چارہِ وحشت نہیں ہوتا
نہیں جاتی، ہماری چاک دامانی نہیں جاتی

ستم کو بھی کرم سمجھا، جفا کو بھی وفا سمجھا
مگر اِس پر بھی اُن کی چینِ پیشانی نہیں جاتی

عجب خُو ہے کہ بے مطلب کی اکثر مان لیتے ہو
مگر مطلب کی جب کہیے تو وہ مانی نہیں جاتی

مرض کا جاننا یا نبض کا پہچاننا کیسا!
ترے بیمار کی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی

تمہاری پُرغضب چتون مجھی پر وار کرتی ہے
یہ برچھی غیر کے سینے پہ کیوں تانی نہیں جاتی

وہی رِندی ہے جس کے ساتھ شانِ پارسائی ہو
وہ مے کیا، دامنِ تقویٰ میں جو چھانی نہیں جاتی

بہار آئی ہے یا سارے زمانے پر شباب آیا
کسی سے زالِ دنیا! اب تُو پہچانی نہیں جاتی

وہی تیور، وہی گھاتیں، وہی فتنے نگاہوں کے
قیامت میں بھی اُن کی حشرسامانی نہیں جاتی

ترے کُوچے میں رہ کر مجھ کو مر مٹنا گوارا ہے
مگر دَیر و حرم کی خاک اب چھانی نہیں جاتی

کیا ہے جوشؔ ترکِ مے کشی کا عہد گو مَیں نے
مگر اس عہد پر میری پشیمانی نہیں جاتی

Related posts

Leave a Comment