ٹوٹ کر عشق کیا ہے بھی نہیں بھی شاید
مجھ سے یہ کام ہوا ہے بھی نہیں بھی شاید
اے مری آنکھ کی دہلیز پہ دم توڑتے خواب!
مجھ کو افسوس ترا ہے بھی نہیں بھی شاید
میری آنکھوں میں ہے ویرانی بھی شادابی بھی
خواب کا پیڑ ہرا ہے بھی نہیں بھی شاید
دل میں تشکیک ہوئی تجھ کو نہ چھو کر کیا کیا
ایسے تقوے کی جزا ہے بھی نہیں بھی شاید
میں ہوں جس عہدِ پر آشوب میں زندہ سیّد
اس میں اب ہونا مرا ہے بھی نہیں بھی شاید
Related posts
-
حفیظ جونپوری ۔۔۔ زمانے کا بھروسا کیا ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے
زمانے کا بھروسا کیا ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے یہی ہے رنگ دنیا کا، ابھی... -
میر تقی میر ۔۔۔ اپنے ہوتے تو با عتاب رہا
اپنے ہوتے تو با عتاب رہا بے دماغی سے با خطاب رہا ہو کے بے پردہ... -
مرزا غالب ۔۔۔ نقش فریادی ہے کس کی شوخیِٔ تحریر کا
نقش فریادی ہے کس کی شوخیِٔ تحریر کا کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا شوخیِ...