ٹوٹ کر عشق کیا ہے بھی نہیں بھی شاید
مجھ سے یہ کام ہوا ہے بھی نہیں بھی شاید
اے مری آنکھ کی دہلیز پہ دم توڑتے خواب!
مجھ کو افسوس ترا ہے بھی نہیں بھی شاید
میری آنکھوں میں ہے ویرانی بھی شادابی بھی
خواب کا پیڑ ہرا ہے بھی نہیں بھی شاید
دل میں تشکیک ہوئی تجھ کو نہ چھو کر کیا کیا
ایسے تقوے کی جزا ہے بھی نہیں بھی شاید
میں ہوں جس عہدِ پر آشوب میں زندہ سیّد
اس میں اب ہونا مرا ہے بھی نہیں بھی شاید
Related posts
-
اختر شمار ۔۔۔ خبر نہیں کہ ملیں ہم زباں کہیں نہ کہیں
خبر نہیں کہ ملیں ہم زباں کہیں نہ کہیں ہماری ہو گی مگر داستاں کہیں نہ... -
زبیر فاروق ۔۔۔ اُس کے دل نے بھی کچھ کہا ہو گا
اُس کے دل نے بھی کچھ کہا ہو گا غیر نے جو کہا سنا ہو گا... -
عباس علی شاہ ثاقب ۔۔۔۔ ہمارے شہر کے سُقراط دیکھو
ہمارے شہر کے سُقراط دیکھو جہالت کی یہاں افراط دیکھو فسادی ہاتھ میں قانون سازی علم...