خامشی کے سبز پس منظر میں
(جناب خالد علیم کے لیے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گُلِ اظہارِجاں
تم جانتے ہی ہو
کہ میں نے خامشی کے
سبز پس منظر میں بھی
اِک عُمر
خاموشی سُنی ہے
پیش منظر کے سُلگتے شور کے اُس پار
جذبے بولتی آنکھیں
محدّب حیرتوں کے عکس بُنتی
سوچتی آنکھیں
حدودِ عرصۂ ہجر و توصّل سے ورا
تہذیب سے الفاظ کا
اور خیر سے اخلاص کا رشتہ
مجسم نظم لگتا ہے
کتب خانے کی الماری میں روشن
اک کلاسیکی مجلّہ
مسکراتی دوستی
اک میز کے کونے سے کونے تک
مجلّد خواہشوں کی سرسراہٹ
دھیرے دھیرے
خواب بن کر پھیلتی جاتی ہے
کس ہموار جگراتے کے مِسطر پر
فغانِ دل کی لَے پر، وہ
دمکتی انگلیوں میں رقص کرتے ادھ جلے
سگریٹ کا سرکش دھواں
اور چائے کے پیالے سے اٹھتی بھاپ
مصرعوں کی طرح موزوں بھی ہوتے ہیں
کبھی دیکھا نہیں تھا
اور اُدھر کھڑکی سے باہر
اشک آوردوپہر
یادیں
رُوپہلی سی روِش
حیرت ہے
ایسے حبس میں بھی
وقت کی خُنکی مسلسل چہل قدمی کر رہی ہے
جُون کا ڈھلتا پَہَر لمحے مسلتا جارہا ہے
خستہ تن اوراق کی صورت
سرِ سطرِ یقیں لیکن یہی چمکا
محامد کی ابد آثار کرنوں سے دمکتے
اس قلم کی روشنائی خُشک ہونے کی نہیں ہے
شام ڈھلتے ہی شفق تنہائی گاتی ہے
کوئی کہتا ہے چپکے سے
کہانی سائیکل کا پچھلا پہیہ ہے
مسلسل گنگناتا ہے:
روانی کے لیے زنجیر ہونے کی ضرورت ہے
رواں ہیں راستے
اپنی ہی دُھن میں
پاؤں دھرتی پر جمے ہیں
مہرباں اُس پیڑ کی صورت
جسے پتّے کترتے پنچھیوں سے بھی محبت ہے
ہوائیں
پُر شکن، بوجھل ہوائیں
آتے جاتے موسموں کے
ایسے گوشوں سے بھی گزری ہیں
یہ نیلے آسماں کو یاد تو ہو گا
جہاں بس چھاؤں تھی
سایہ نہیں تھا
چارسُو، دیوار در دیوار
اندیشے لپکتے تھے
بظاہر حرفِ تسکیں کی طرف کُھلتا دریچہ،
کوئی دروازہ نہیں تھا
ایسے قصبے
ایسے قصّے میں
امیدیں لکھنے والی
حوصلے تعمیر کرتی
بے غرض وہ خامشی میں نے سُنی ہے
میں نے دیکھی ہیں
غنودہ بے حِسی سے منحرف وہ
جاگتی آنکھیں
جو مُردہ آنکھ میں بھی زندہ چہرہ دیکھ لیتی ہیں
محدّب حیرتوں کے عکس بُنتی
سوچتی آنکھیں
وہ جذبے بولتی آنکھیں
دعا کے دونوں پلڑوں میں
ستارے تولتی آنکھیں
اُفق کے حاشیے پر
مرتعش خط میں
دھڑکتی چیخ لکھتی جارہی ہیں
جانے والی رُت کی اک نم ناک
قدرے ملگجی تختی پہ
اُجلی
آنے والی صبح کی تاریخ لکھتی جا رہی ہیں