افضل خان کی غزل ۔۔۔ نوید صادق

افضل خان کی غزل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عہدِ جدید نے جہاں بہت سی آسانیاں پیدا کیں، وہاں نفسیاتی اُلجھنوں کو بھی جنم دیا، رواروی کو رواج دیا۔ فارسی غزل سے ہوتی ہوئی جو محبت ہماری غزل میں آن داخل ہوئی، اس کو محض ایک روایت یا نقالی نہیں کہا جا سکتا کہ یہ ایک انسانی تجربہ ہے جو ہر دور میں مختلف رہا ہے۔ اس میں مختلف عوامل دخیل رہے ہیں۔ میر کا عشق، غالب کا عشق، فراق کا عشق اور پھر ہمارے قریب کے عہد میں ناصر کاظمی کا عشق ۔۔۔ اب قصہ پارینہ بنتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس کی وجہ کچھ اور نہیں بل کہ انسانی نفسیات میں تبدیلی ہے۔افضل خان بھی بدلی ہوئی یا بدلتی ہوئی نفسیات کا شاعر ہے۔ اس کے ہاں محبت میں حقیقت پسندی کا رجحان نمایاں ہے۔روایتی معاشرہ میں عشق ایک بنیادی قدر تھی، میر کے والد نے مرتے وقت میر سے کہا تھا کہ بیٹا عشق کرنا۔ اس لیے کہ عشقِ مجازی اور عشقِ حقیقی کائنات کو سمجھنے سمجھانے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ قدیم معاشرہ میں محبت افراد میں قوت اور ہمت کا باعث سمجھی جاتی تھی۔لیکن عہدِ موجود میں یہ محض ایک تجربہ ہے یا یوں کہیے کہ "حیاتیاتی ضرورت” جسے محمد حسن عسکری ’’حیاتیاتی آنکھ مچولی‘‘ قرار دیتے تھے۔’’تم مرے پاس ہوتے ہو گویا‘‘ والی کیفیت بھی عقل کی میزان پر غیر اہم معلوم ہوتی ہے۔ ناز و انداز و عشوہ بھی بے معنی ٹھہرتے ہیں کہ وقت کی کمی ہے۔سب چلے گا، یوں بھی اوریوں بھی:

وہ جو اک شخص وہاں ہے وہ یہاں کیسے ہو
ہجر پر وصل کی حالت کا گماں کیسے ہو

وصل و ہجراں میں تناسب راست ہونا چاہیے
عشق کے ردِّعمل کا مسئلہ چھیڑوں گا مَیں

تیرے رستے میں یونہی بیٹھا ہوں، فریادی نہیں
مَیں محبت میں زیادہ بحث کا عادی نہیں
تجربے کے طور پر تیری طرف آیا ہوں مَیں
عشق کرنے کا سبب کوئی بھی بنیادی نہیں
یہ محبت کے محل تعمیر کرنا چھوڑ دے
مَیں بھی شہزادہ نہیں ہوں، تو بھی شہزادی نہیں

فیصلہ چھوڑ دیا ہے تجھ پر
دل تو تیار ہے یوں بھی، یوں بھی

تبھی تو میں محبت کا حوالاتی نہیں ہوتا
یہاں اپنے سوا کوئی ملاقاتی نہیں ہوتا

لیکن کہیں کہیں محبت کی اصل روح انگڑائیاں لیتی دکھائی دیتی ہے لیکن اس کی موجودی یا یوں کہہ لیجیے کہ وجودمحض انگڑائیوں تک ہے۔ کہ وہ خلوص، وہ دردمندی کہ اردو غزل میں اس کا خاصہ رہی ہے، کہیں بہت پیچھے رہ گئی ہے: 

تیرے جانے سے زیادہ ہیں نہ کم پہلے تھے
ہم کو لاحق ہیں وہی اب بھی جو غم پہلے تھے

کل اپنے شہر کی بس میں سوار ہوتے ہوئے
وہ دیکھتا تھا مجھے اشک بار ہوتے ہوئے

راہِ گم نام پہ قدموں کو اٹھاتے ہوئے مَیں
کتنا بوجھل ہوں ترے شہر سے جاتے ہوئے مَیں

یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ محبوب کا شہر چھوڑتے ہوئے اصل دکھ محبوب سے جدائی کا نہیں بل کہ اس کے بعد ایک گم نام رہ گزر پر پاؤں دھرنے کا ہے۔ یہاں یہ احساس بھی سامنے آتا ہے کہ شاعر کو اس بات کا مطلق ادراک ہے کہ محبت کہ ہماری زندگی، ہمارے معاشرے میں ایک قدر کا درجہ رکھتی تھی، کہیں کھو گئی ہے اور آج اسی ضیاع کے باعث بے سمتی ہمارا نصیب ہے۔
سماجی نفسیات میں افراد کے باہمی تعلقات سب سے زیادہ دل چسپی کے حامل ہیں۔ افراد کے باہمی تعلقات اُن کے خیالات، احساسات اور طرزِ عمل پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ اندرونی یا بیرونی محرک کے خلاف کسی شخص کا رویہ یا ردِ عمل خصوصاً اہمیت رکھتا ہے۔ جدید انسان کے جہاں اور بہت سے مسائل ہیں وہیں اس کا سب سے بڑا مسئلہ شدید احساسِ مغائرت ہے، وہ اکیلا ہے، دکھ میں سکھ میں۔ زندگی کی اکائی فرد ہے، معاشرہ نہیں۔ باہمی اتفاق نفاق میں تبدیل ہو گیا ہے۔اعتماد کا فقدان بھی اسی مغائرت کی دین ہے۔معاشرے میں باہمی انحصار کی سطح معاشرے کی اقدار کا تعین کرتی ہے ۔ انسان ۔۔۔ انسان سے، خدا سے، فطرت سے الگ ہو کر طرح طرح کے ذہنی امراض کا شکار ہو جاتا ہے۔ نفسیاتی معالج مریض کے رویے یا کسی محرک سے ردِعمل کو بتدریج تبدیل کرتے ہیں تو ادیب ان رویوں، ان نفسیاتی گنجلکوں کا کتھارسس کرتا ہے۔ اس کے مثبت اور منفی پہلوؤں کا تجزیہ پیش کرتا ہے۔ اور لازمی درپیش خطرات کی پیش بندی کرتا ہے:

ہماری بحث سمٹتی نظر نہیں آتی
مرے خیال میں فی الحال گھر چلا جائے

اب اپنے آپ سے باتوں میں وقت گزرے گا
تعلقات کشیدہ ہیں شہر بھر سے مرے

اپنے کنارے خود ہی کاٹنے لگتا ہے
پڑ جاتی ہے روز خرابی دریا میں

امکاں قبولیت کی گھڑی کا تھا اس لیے
مانگی نہیں کسی نے کسی کے لیے دعا
اے لب تک آرزو کو نہ لاتے ہوئے بزرگ
اپنے لیے نہیں تو کسی کے لیے دعا

دالان میں سبزہ ہے نہ تالاب میں پانی
کیوں کوئی پرندہ مری دیوار پہ اترے

خود بڑھ کے دیکھ آؤں کہ گھر لوٹ جاؤں میں
رستے میں یہ کھلا ہے کہ بازار بند ہے

ان درختوں کو دعا دو کہ جو رستے میں نہ تھے
جلدی آنے کا سبب تیز خرامی تو نہیں

اے خدا!کون کرے گا میرے ہونے کا یقیں
میرے ماتھے پہ یہ تحریر نہیں ہے میں ہوں

میں نے کل رات اکیلے میں بہت رقص کیا
یہ نہ سوچا کہ سرِ بامِ فلک ہے کوئی

ہوا کے خوف سے لپٹا ہوں خشک ٹہنی سے
کہیں جانا نہیں، جانے کی تیاری نہیں کرنی

جدیدیت کی تحریک سے قبل علم کی ماہیت، طریقوں اور حدود کا مطالعہ الہٰیات یا باطنیت پر مبنی تھا۔عقیدے کی اہمیت تھی۔جدیدیت کی تحریک میں نقطہ نظر یہ تھا کہ دنیا اور کائنات عقل، تجربے اور مشاہدے کے ذریعے ہی دریافت کی جا سکتی ہے۔ اس کے حقائق تک رسائی صرف سائنسی طریقوں سے ہی ممکن ہے۔ عقل کی لامحدود بالادستی کو اہمیت دی گئی۔اس تحریک نے مذہب اور الہٰیات کے بارے میں شکوک و شبہات کو جنم دیا۔ سیاسی محاذ پر اس تحریک نے خدا کے بجائے عوام کو اقتدارِ اعلیٰ کا نمائندہ قرار دے دیا۔ معاشی محاذ پر اس تحریک نے سرمایہ دارانہ معیشت اور نئے صنعتی معاشرے کو وجود بخشا۔ اخلاقی محاذ پر اس تحریک نے افادیت پسندی کا فلسفہ عام کیا۔ ما بعد جدیدیت تمام نظریات کے انکار کا دوسرا نام ہے۔ اس کے تحت دنیا میں کسی آفاقی سچائی کا کوئی وجود نہیں ہے۔آفاقی سچائی ہو یا کوئی اور اخلاقی قدر، حسن و خوب صورتی کا احساس سب اضافی اور غیر اہم ہیں۔ مابعد جدیدیت کا تعلق انفرادی پسند و ناپسند اور حالات سے ہے۔ایک ہی بات ایک مقام پر درست ہے تو ایک مقام پر غلط۔ ایک حالت میں سچ ہے اور ایک حالت میں جھوٹ۔ اس تحریک میں سائنس کو بھی حتمی سچائی کے طور پر قبول نہیں کیا جاتا۔مابعدجدیدیت کے باعث لوگوں کی دل چسپی افکارو نظریات سے کم ہوئی۔ سب ذاتی اور ذاتی پسند کے تحت ہے۔ یوں میرے نزدیک مابعد جدیدیت تعمیر سے زیادہ تخریب کی علم بردار ہے: 

گئے وہ دن جب مَیں سوچتا تھا
جو یوں نہیں ہے تو کیوں نہیں ہے

اب آدمی بنانے لگا ہے خود آدمی
اس کوزہ گر کی کوزہ گری کے لیے دعا

اب جو پتھر ہے، آدمی تھا کبھی
اس کو کہتے ہیں انتظار، میاں!

اے طبعِ گریزاں! یہ ضروری تو نہیں ہے
ہر شخص ہی پورا ترے معیار پہ اترے

نکل پڑا تھا جنوں کے بہاؤ میں گھر سے
اور اب یہ سوچ رہا ہوں، کدھر چلا جائے

میں خود آنسو کی طرح آنکھ میں آیا ہوا تھا
اپنے اندر ہی روانی کی طلب تھی مجھ کو

بہشت ہو یا زمین افضل
مجھے کہیں بھی سکوں نہیں ہے

افضل خان اپنے تجربات و مشاہدات کو شعری اکائی میں ڈھالنے کی کوشش میں نظر آتے ہیں۔ روایت کا شعور بھی اپنی جھلکیاں دکھاتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی انفرادیت استوار کرنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔جذبہ و احساس کی مختلف سطحوں کو برتنے کی کوشش کرتے ہیں۔مختلف موضوعات کو غزل کے آہنگ میں ڈھالنے کی کوشش  کرتے ملتے ہیں۔ لیکن کہیں بھی گہری فکر کا دامن ہاتھ سے نہیں جاتا۔لہجے کی تازگی اور توانائی اور خوداعتمادی شعری حسن کو مزید نکھارتے ہیں۔ اسی انفرادیت کے چکر میں کہیں کہیں ان کے تجربات عجیب و غریب روپ دھارتے دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن تجربات بہ ہرحال تجربات ہیں اور ان کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ انھی تجربات کے ذیل میں اختیار کردہ انوکھی زمینیں بھی آتی ہیں۔ جہاں کہیں کامیابی تو کہیں ناکامی ان کے حصے آئی ہے۔ لیکن ان کے ہاں امکانات کی کمی نہیں اور فی الحال یہی بہت ہے۔ کہ ان کا مستقبل میں تشکیل پاتا ایک انفرادی لب و لہجہ نظر آتا ہے:

سر کے بل آج کھڑا ہوں میں، زمانے والو!
سچ بتانا کہ مری سب سے نرالی نہیں چھت

اک وڈیرہ کچھ مویشی لے کے بیٹھا ہے یہاں
گاؤں کی جتنی بھی آبادی ہے، آبادی نہیں

نہیں تھا دھیان کوئی توڑتے ہوئے سگریٹ
میں تجھ کو بھول گیا چھوڑتے ہوئے سگریٹ
مشابہ کتنے ہیں ہم سوختہ جبینوں سے
کسی ستون سے سر پھوڑتے ہوئے سگریٹ

کہیں ایسا نہ ہو، یا رب! کہ یہ ترسے ہوئے عابد
تری جنت میں اشیا کی فراوانی سے مر جائیں

مرا سارا اثاثہ اک تعلق تھا، اک آئینہ
مگر اک روز جی چاہا کہ یہ بھی توڑ دوں، وہ بھی

یہ روشنی کی مورتی پہاڑ تھی نہ آڑ تھی
ہمارے درمیاں سے کیوں اٹھا دیا گیا دِیا

اس آدمی سے کوئی بات کیا چھپائیں جسے
ہمارے بارے میں سب کچھ بتا دیا گیا ہے

عشق تمھارا کھیل ہے، باز آیا اس کھیل سے مَیں
میرے ساتھ ہمیشہ بے ایمانی ہوتی ہے

رت جگوں سے خواب کا تاوان لے، بتی بجھا
نیند آئی ہے تو چادر تان لے، بتی بجھا

تری گردن ،سمجھ مٹھی میں ہے، اے شہرِ شوخاں!
تجھے جب چاہے گا یہ غم کا مارا مار دے گا

مرے وجود سے دھاگا نکل گیا ہے، دوست!
میں بے شمار ہوا ہوں شمار ہوتے ہوئے

میں پہلے کوفہ گیا اس کے بعد مصر گیا
اِدھر برائے شہادت، اُدھر برائے فروخت

نہ رکنے والی گاڑی کا مسافر ہوں مَیں جس کو
چوراہے پر فروزاں سرخ اشارہ مار دے گا

افضل خان! ایک بات بطور خاص کہنا چاہوں گا کہ ظفر اقبال صاحب نے اپنے کالم میں آپ کے نام کو غیر شاعرانہ قرار دیا اور ان  کا یہ دعویٰ بلکہ اسے دعویٰ کہنا بھی یوں ہی ہے کہ ۔۔۔، جیسے میں نہیں سمجھ سکا، یقیناً انھیں بھی علم نہیں ہو پایا ہو گا کہ وہ ایسا کیوں لکھ گئے، ویسے اگر ایک لمحہ کو ان کی بات پر غور کرنے کی گنجایش نکال لی جائے تو پھر ظفر اقبال ؟۔۔۔ نوید صادق؟ کیسے نام ہیں؟ اس سوال کا جواب میں اپنے قارئین پر چھوڑتا ہوں کہ میں کون ہوتا ہوں ایسا فیصلہ دینے والا، ویسے افضل خان کے نام کے بارے میں رائے دینے کا حق انھیں کس نے تفویض کر دیا، یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے۔   لیکن آپ تو خود بھی اپنے درپے نظر آ رہے ہیں۔  آپ نے تو اپنی وضع قطع کو بھی غیر شاعرانہ کہہ دیا۔ یہ بات کچھ ہضم نہیں ہو پائی ۔۔۔ کم از کم مجھے تو بالکل نہیں ۔۔۔ ویسے اگر آپ بات اپنے آپ تک رکھتے تو مَیں اسے ایک طنز سمجھ کر آگے بڑھ جاتا لیکن آپ نے تو  عبدالحمید عدم کو بھی اپنے ساتھ دھر لیا ہے:

اپنے حلیے سے سخن ساز نہ لگنے والے
ہم یہاں دوسرے شاعر ہیں عدم پہلے تھے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Related posts

Leave a Comment