فرحت پروین ۔۔۔ گولڈ فش

گولڈ فش​ وہ کسی بے روح لاشے کی طرح بالکل سیدھی لیٹی ہوتی۔ صرف وقفے وقفے سے جھپکتی پلکیں اس کے زندہ ہونے کا پتہ دیتیں ۔وہ شاذ ہی کروٹ کے بَل لیٹتی یا کروٹ بدلتی۔ کم از کم شازینہ نے اسے کبھی پہلو کے بل لیٹے نہیں دیکھا تھا۔ وہ جب بھی اس کے پاس گئی اُسے یونہی مردوں کی طرح بے حس و حرکت لیٹے ہوئے پایا۔ وہ ایک آرام دہ پرائیویٹ کمرے میں مقیم تھی۔ اُس کے کمرے میں ہر سہولت موجود ہونے کے علاوہ روزانہ تازہ…

Read More

محمد جواد ۔۔۔ اچھے لوگ برے لوگ​

اچھے لوگ برے لوگ​ یقین کیجیے کرائے کے مکانوں میں دھکے کھانے والوں کی بھی اپنی ایک نفسیات ہوتی ہے یایوں کہیے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بن جاتی ہے ۔پکاکوٹھاڈال کر رہنے والے کچھ اور طرح کے لوگ ہوتے ہیں ۔وہ اضطراب ، وہ خانہ بدوشانہ قسم کامزاج اور وہ عجیب طرح کا عدم تحفظ بس وہی لوگ بھگتتے ہیں جوان تجربات سے گزرتے ہیں ۔میں یہ سب باتیں آپ سے اس لیے shareکر رہا ہوں کہ دوماہ قبل میں نے اپنی بیوی اور دوبچوں سمیت پھرنقل مکانی…

Read More

خالد علیم ۔۔۔ ایک کہانی نئی پرانی​

ایک کہانی نئی پرانی​ تو کیا تم سمجھتے ہو کہ تم نے کہانیاں لکھنی سیکھ لی ہیں ۔بہت خوب!۔۔۔ سچی بات تو یہ ہے کہ تمھاری اکثر کہانیوں میں تمھاری اپنی ہی دہرائی ہوئی باتیں ہوتی ہیں ۔ تھوڑ ا سا مرچ مصالحہ ڈال لیا ۔ کچھ نئے معنی پر لفظوں کی نئی ترتیب کا رنگ روغن چڑ ھا لیا اور سمجھ لیا کہ تم نے کہانی لکھ لی۔ تم نے کبھی غور ہی نہیں کیا کہ تم خود بھی ایک کہانی ہو۔ ایسی کہانی کہ اگر لکھی جائے ‘…

Read More

ڈاکٹر ریاض توحیدی …. اپنا گھر

اپنا گھر وہ دمے کی مریضہ تھی اور پچھلے ایک مہینے سے شہر کے ایک سرکاری اسپتال میں ایڈمٹ تھی۔ مقامی اسپتال میں علاج معالجہ کے بعد اسے جب کوئی خاص افاقہ نہیں ہوا بلکہ بیماری نے طول پکڑا تو اسے شہر کے چیسٹ کیئر اسپتال میں ریفر کیا گیا۔ در اصل چیسٹ کیئر اسپتال میں منتقل کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مقامی اسپتال میں چیک اپ کرنے کے بعد چند دوائیاں لکھ کر اسے گھر بھیج دیا جاتا تھا اور گھر پر رات دن کھانس کھانس…

Read More

آغا بابر ۔۔۔ پھیلتا ہوا کاجل (افسانہ)

’’اس وقت کا خیال کرو جب عورت کا بال سفید ہوجاتا ہے، جب عورت کے پھل پک کر سڑ جاتے ہیں اور معاشرے کی خود کار مشین اس کو اگلی قطار سے پھٹک کر پچھلی قطار میں پھینک دیتی ہے۔ اتنی دیر میں اگلی قطاروں میں نئی لڑکیاں آجاتی ہیں۔‘‘ ’’آجاتی ہوں گی۔‘‘ سلیمہ بغیر کسی ر د عمل کے بولی۔ چہرہ کورے کا کورا۔ جوار نہ بھاٹا۔ جیسے جامد پانی میں کنکر تک نہ گرے۔ یہ بات نصر ہی نے نہیں کہی تھی۔ ایسی باتیں کئی لڑکے اور کہہ…

Read More

سعادت حسن منٹو ۔۔۔ وہ لڑکی

سوا چار بج چکے تھے لیکن دھوپ میں وہی تمازت تھی جو دوپہر کو بارہ بجے کے قریب تھی۔ اس نے بالکنی میں آکر باہر دیکھا تو اسے ایک لڑکی نظر آئی جو بظاہر دھوپ سے بچنے کے لیے ایک سایہ دار درخت کی چھاؤں میں آلتی پالتی مارے بیٹھی تھی۔ اس کا رنگ گہرا سانولا تھا۔ اتنا سانولا کہ وہ درخت کی چھاؤں کا ایک حصہ معلوم ہوتا تھا۔ سریندر نے جب اس کو دیکھا تو اس نے محسوس کیا کہ وہ اس کی قربت چاہتا ہے، حالانکہ وہ…

Read More

خزاں گزیدہ … رشید امجد

قیدی کو اس حالت میں لایا گیا کہ گلے میں طوق اور پاﺅں میں زنجیریں، زنجیروں کی چھبن سے پاﺅں جگہ جگہ سے زخمی ہوگئے تھے اور ان سے خون رس رہا تھا۔ طوق کے دباﺅ سے گردن کے گرد سرخ حلقہ بن گیا تھا جو کسی وقت بھی پھٹ سکتا تھا۔ قیدی طوق کے بوجھ اور پاﺅں کی زنجیروں کی وجہ سے سیدھا کھڑا نہیں ہوسکتا تھا۔ نیم وا کمر جھکائے جھکائے اُس نے میز کے پیچھے بیٹھے شخص کو خالی آنکھوں سے دیکھا، نہ کوئی سوال نہ کوئی…

Read More

پنجرہ … رشید امجد

بیٹھے بیٹھے خیال آیا کہ اس دنیا کے اندر ایک اور دُنیا موجود ہے جس میں ہم جیسے لوگ رہ رہے ہیں اور ہم جیسے کام کررہے ہیں، ہم زادوں کی یہ دُنیا نظر تو نہیں آتی لیکن کبھی کبھی اپنا احساس ضرور کراتی ہے۔ ”تمہیں اس کا خیال کیسے آیا؟“ مرشد نے پوچھا ”بس یونہی، مجھے ایسا لگا جیسے جو کچھ میں کررہا ہوں، اسے پہلے بھی کرچکا ہوں۔“ وہ سوچتے ہوئے بولا۔ ”کبھی کبھی یوں لگتا ہے جیسے میں خود کو دہرارہا ہوں۔“ مرشد سوچ میں پڑگیا، تادیر…

Read More

رشید امجد ۔۔۔ دشتِ تمنّا

خزانے کا خواب متوسط طبقے کے اکثر لوگوں کی طرح اسے بھی وراثت میں ملا تھا، پرانے گھر میں اس کے باپ نے بھی کئی جگہیں لکھ دی تھیں لیکن خزانہ تو نہ ملا گھر کی خستگی میں اضافہ ہوگیا۔ پھر اس نے یہ خواب دیکھنا چھوڑ دیا جو اسے اپنی ماں سے ورثے میں ملا تھا۔ عمر کے آخری دنوں میں وہ مایوس ہوگیا لیکن نہیں جانتا تھا کہ یہ خواب وراثت میں اس کے بیٹے کو منتقل ہوگیا ہے۔ وراثت میں منتقل ہونے کے لئے کچھ تھا بھی…

Read More

سعادت حسن منٹو ۔۔۔ الو کا پٹھا

الو کا پٹھا قاسم صبح سات بجے لحاف سے نکلا اور غسل خانے کی طرف چلا۔ راستے میں، یہ اس کو ٹھیک طور پر معلوم نہیں، سونے والے کمرے میں، صحن میں یا غسل خانے کے اندر اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ وہ کسی کو ’’اُلو کا پٹھا‘‘ کہے۔ بس صرف ایک بار غصے میں یا طنزیہ انداز میں کسی کو ’’اُلو کا پٹھا‘‘ کہہ دے۔ قاسم کے دل میں اس سے پہلے کئی بار بڑی بڑی انوکھی خواہشیں پیدا ہو چکی تھیں مگر یہ خواہش…

Read More