شاہین عباس ۔۔۔ ایڈیٹنگ

ایڈیٹنگ   نظم ہو یا افسانہ، کچھ بھی لکھتے ہوئے، مجھے بارہا قطع و برید کے جبر سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہ جبر کبھی تو رزمیہ بن جاتا ہے اور کبھی طربیہ۔ میں نے نظم لکھی ، جس کامصرع تھا خدا ایک ہے۔ اگلی ہی جست میں اُسے یوں تبدیل کردیا، لا ایک ہے یا یوں کہیے کہ دونوں مصرعوں کو ایک دوسرے کے متوازی استوار کر دیا کہ بھلے ہی دیرینہ دشمنوں کی طرح گھورتے رہیں ، مگر ٹکرائیں نہیں۔ یوں سوال کا جواب دیا اور جواب پر سوال…

Read More

آصِف عمران ۔۔۔ ہم سُخن ہُوئے خواب

ہم سُخن ہُوئے خواب رات کاپچھلا پہر ہے اور گلی میں سناٹا زرد چاندنی کی چادر اوڑھے گہری نیند سو رہا ہے۔مَیں پلنگ پر لیٹا سوچ رہا ہُوں کہ مجھے نیند کیوں نہیں آرہی۔ یہ نیند کا پرندہ روشندان میں بیٹھا گھر کے دروازے پرنظریں جمائے کِس کے اِنتظار میں ہے جب کہ گھر کے ہر کمرے میں نیند بھری سانسوں کا پکا راگ ہر فردکے پلنگ پر بیٹھا میرے ساتھ جاگ رہاہے۔اِس راگ میں چند سانسوں کی تکرار سماعتوں میں گونج بن کر اپنی لَے پر رقص کر رہی…

Read More

حمزہ حسن شیخ ۔۔۔ رحیمو کی ریڑھی

رحیمو کی ریڑھی پارک میں بہت رش تھا اور ہر سو لوگوں کا ہجوم تھا۔ موسیقی اونچی آواز میں بج رہی تھی اور کتوں کی بھونک اس کا ساتھ دے رہی تھی۔ ماحول خوشگوار تھا اور ہر چہرہ خوشی سے بھرپور۔ انسانوں اور کتوں کا جمگھٹا آپس میں گھل مل چکا تھا۔ موٹے اور طاقتور مالکان اپنے کتے سنبھالنے میں مگن تھے۔ انھوں نے اپنے کتوں کی ڈوریں سنبھال رکھی تھیں لیکن کتے اتنے بڑے تھے کہ وہ ان کو سنبھالنے میں ناکام نظر آتے تھے۔ پارک کے ایک کونے…

Read More

شاہین عباس ۔۔۔ امانت سولہ آنے

شہر میں کچھ بن رہا تھا۔ کیا بن رہا تھا،یہ اندازہ ذرامشکل ہی سے ہوپاتا۔ صورت کچھ یوں تھی کہ اندازہ لگانے والے فیتے اور فرلانگ اپنی قدر کھو بیٹھے تھے۔فیتے، لوہے کے صندوقوں میں پڑے تھے اور صندوقوں کی پیشانیوں پر بڑے بڑے تالے خالی خولی کھڑاک کے لیے ڈال د یے گئے تھے۔ چلتی ہوا کے ساتھ ساتھ بے طرح کا کھٹکاکھڑاک،جیسے لوہا،لوہے سے بجتا ہو یا بھڑتا ہو۔ دونوں آوازوں میں فرق کرنا ممکن نہیں تھا۔ رہے فرلانگ،تو وہ زمین کے اندر پرت،دو پرت گھنے،گھنیرے پردوں میں…

Read More

اعجازاحمدفکرال ۔۔۔ چیخ

چیخ ۔۔۔ سارہ کا تعلق آرتھوڈوکس فیملی سے تھا۔ آج ڈیوٹی سے فارغ ہو کر اس نے گھر جانے کے لیے اپنے چھوٹے بھائی کو ٹیلی فون کرکے بلا لیا تھا۔کڑاکے کی سردی تھی۔ رات کے اندھیرے میں کوری دھند چھا رہی تھی۔ وہ شادمان چوک میں بھائی کے ساتھ کھڑی کسی سواری کا انتظار کر رہی تھی۔ کچھ دنوں سے پاشا اور اس کے دوستوں کے دماغوں میں بلیو فلمیں دیکھنے کی وجہ سے نسوانی قرب کا بھوسہ بھر چکا تھا۔ پاشا گناہ کا پرانا کھلاڑی تھا۔ اس نے…

Read More

حامد یزدانی ۔۔۔ مرغولے

مرغولے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’جو نفی ٔذات کی سیڑھیاں چڑھتا ہے وہی قُربِ الہٰی کی منزل پاتا ہے۔ رب کہتا ہےکہ تقویٰ اختیارکرو تو مطلب یہ کہ اس سے ڈرو۔۔۔‘‘ ’’عنوان !‘‘۔۔۔’’عنوان۔۔۔؟‘‘ ’’عنوان۔۔۔تو بتا دیجیے پہلے، جناب۔‘‘ سرگوشی نے اسے چونکا دیا۔ ’’اوہ، جی،جی۔معاف کیجیے گا، میں بھول گیا۔میرے افسانے کا عنوان ہے ’ڈر‘۔‘‘ نوآموز افسانہ نگارنے یہ کہتے ہوئے ایک جھکی جھکی نظر حاضرین پر ڈالی۔ اپنے استخوانی لرزیدہ ہاتھ سے سفیدکاٹن کے تریزوں والے کُرتے کی دائیں جیب میں سے چُڑمُڑا سا نیلا رومال نکالا اور ماتھے پر ابھرتے پسینے…

Read More

خالی بالٹی ۔۔۔ حامد یزدانی

خالی بالٹی ۔۔۔۔۔۔۔ اب مجھے اُنہیں ڈھونڈنا ہے۔ سرکاری دورے کا آج آخری دن ہے۔ پچھلے چار دن میں مختلف رسمی ملاقاتوں اور باقاعدہ اجلاسوں میں کچھ یوں الجھا رہا کہ نہ تو قدم ڈھاکہ کی چند سرکاری عمارتوں کی سفید راہداریوں میں بھٹکتے تذبذب سے باہر نکل پائے اور نہ ہی ذہن اکڑی ہوئی کرسیوں کو کھینچ کرمستطیل میز کے قریب کرنے اور پھر گھسیٹ کر دُور کرنے کی دھیمی دھیمی گونج سے آزاد ہو پایا۔ ایک نو قائم شدہ ملک کے دارالحکومت میں مصروفیات کی ترتیب یا بے…

Read More

مکینک کہاں گیا ۔۔۔ محمدحامدسراج

مکینک کہاں گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ دل پر لگنے والی چوٹ گہری تھی، من میں اترنے والا گھائو شدید تھا۔اس کی آنکھیں جھکی تھیں۔ پائوں کے انگوٹھے سے وہ زمین کرید رہاتھا۔آنکھیں اٹھانا اس تربیت کے خلاف تھاجواس کی طبیعت اورمزاج کا بچپن سے حصہ تھی۔وہ آنکھیں اٹھاکر باپ کے سامنے گستاخی کامرتکب نہیں ہوناچاہتاتھا۔باپ اسے تھپڑ دے مارتاتو وہ سہہ جاناآسان تھا ۔لیکن باپ کی آنکھ میں اُترا غصہ اس کے وجودکوریزہ ریزہ کر گیا۔اپنے وجودکے ریزے چن کردوبارہ سانس بحال کر کے وہ کہیں نکل جاناچاہتاتھا لیکن یہ اتنا آسان…

Read More

لوہے کا کمر بند ۔۔۔ رام لعل

لوہے کا کمر بند ۔۔۔۔۔۔۔ بہت عرصہ گزرا کسی ملک میں ایک سوداگر رہتا تھا۔ اس کی بیوی بہت خوب صورت تھی۔ اتنی خوب صورت کہ اس کی محض ایک جھلک پانے کے لئے عاشق مزاج لوگ اس کی گلی کے چکر لگایا کرتے تھے۔ یہ بات سوداگر کو بھی معلوم تھی، اس لیے اس نے اپنی بیوی پر سخت پابندیاں عائد کر رکھی تھیں۔ اس کی اجازت کے بغیر وہ کسی سے مل نہیں سکتی تھی۔ اس کے قریب قریب سارے ہی ملازم دراصل اس سوداگر کے خفیہ جاسوس…

Read More

کہِیں اُس طرف بھی رات نہ ہو!٭ ۔۔۔ حامد یزدانی

کہِیں اُس طرف بھی رات نہ ہو!٭ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اِس طرف کمرا خاموش ہے۔ شام کا پردہ گرتا ہے اور وہ دھڑام سے بستر پرآ گرتا ہے۔ غیر ارادی طور پر ہی اس کا بایاں ہاتھ تپائی کی طرف بڑھتا ہے اور ٹیبل لیمپ روشن کر دیتا ہے۔ زیرو واٹ بلب کا زردی مائل اجالاگویا منہ چڑانے لگتا ہے، تپائی پر اونگھتی کتاب کا یا شاید اُس میں قید رات کا۔جانے کیا سوچ کر وہ کتاب اٹھا لیتا ہے اور جانے کیوں وہی صفحہ کُھلتاہے جس پر سِرے سے صفحہ نمبر…

Read More