پار سال کا باسی ۔۔۔ ڈاکٹر ستیہ پال آنند

پار سال کا باسی ۔۔۔۔۔۔۔ آنسو بہا بہا کر آنکھیں سوکھ گئی تھیں۔ کھارے پانی کا ایک ریلا کئی دنوں سے اُمڈا چلا آ رہا تھا، لیکن آخری انتم ایک دن اور ایک رات تو قیامت کاطوفان اٹھا تھا اور میں ہسپتال میں انٹینسو کیئر وارڈ Intensive care ward کے کمرے کے باہر بینچ پر بیٹھا سسک سسک کر رونے لگا تھا۔ ایک بوڑھے مردکو یوں بے حال ہوتے ہوئے دیکھ کر تین چار نرسیں میرے ارد گرد اکٹھی ہو گئی تھیں، مجھے دلاسا دیتے ہوئے، تسلی کے الفاظ کہتے…

Read More

کہانی ۔ ۔ ۔ حامد یزدانی

کہانی ۔۔۔ ’’ کہانی سُنائیے ناں، پاپا! مجھے نیند نہیں آرہی‘‘۔ ’’نہیں آج نہیں بیٹا، بہت تھکن ہو گئی آج تو ۔۔۔‘‘ ’’ کِسے؟ کہانی کو ؟‘‘ ’’ ارے نہیں، مجھے ۔۔۔ دن بھر کی مصروفیات نے تھکا کر رکھ دیا ہے۔ کل سُن لینا کہانی ۔۔۔ ضرور سناؤں گا کل ۔۔۔‘‘ ’’ یہ بات تو آپ نے کل بھی کی تھی ۔۔۔۔ مگر آج سنا نہیں رہے ۔۔۔ بس آج تو میں ۔۔۔‘‘ ’’اچھا، بابا، اچھا ۔۔۔کہو، کون سی کہانی سنو گے ۔۔۔؟‘‘ ’’کوئی سی بھی ۔۔۔‘‘ ’’ پھر…

Read More

دریچے کی آنکھ سے ۔۔۔ خالد علیم

دریچے کی آنکھ سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے پورا زور لگا کر اپنی دونوں کہنیاں بستر پر ٹکائیں ۔ کہنیوں کے بل دائیں کندھے کوبستر پر جھکا کر اپنا سر تکیے کی طرف موڑا اور آہستہ آہستہ پائوں کو کھینچتا ہوا بستر پر لے آیا۔ پھر نیم دراز حالت میں کمرے کی مغربی کھڑکی کو دیکھنے لگا۔ ٹوٹے ہوئے شیشے والے حصے سے باہر کا منظر نسبتاً صاف دکھائی دے رہا تھا۔ اجالا قدرے بڑھ گیا تھا مگر اسے یوں لگ رہا تھا جیسے یہ اجالا بھی اس کے ضمیر کے…

Read More

وہ اور وہ ۔۔۔ حامد یزدانی

وہ  اور  وہ ۔۔۔۔۔۔ ’’اچھا، تم ہی بتائو مجھے ۔۔۔۔ جو نہیں ہے یا نہیں ہوا، کیا وہ ہو بھی نہیں سکتا؟‘‘ ’’بھئی، اشفاق صاحب کے افسانوں کی حدتک تو سب کچھ ہو سکتا ہے ۔۔۔کوئی نورانی بابا جی اچانک کہیں سے نمودار ہو کرجنگل میں بھٹکتے پیاسے کو ہدایت کاروح افزا پلا سکتے ہیں، ایک جیپ خود بخود سٹارٹ ہو کر اپنے مالک کے قاتل کو انجام تک پہنچا سکتی ہے ۔۔۔ مگر حقیقت اور افسانہ دو مختلف چیزیں ہیں‘‘۔ ’’کچھ ایسی مختلف بھی نہیں ہیں کہ جن کے…

Read More

جانِ عالم کی سواری ۔۔۔ غافر شہزاد

جانِ عالم کی سواری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ دونوں اس شہر میں اکٹھے آئے تھے۔دونوں لکھاری تھے۔افسانے لکھتے اور شاعری کرتے۔ آغاز دونوں نے شاعری سے کیا تھا مگر جلد ہی انہیں اندازہ ہو گیا کہ شاعری کے ساتھ نثر نگاری بھی ضروری ہے۔اس لیے انہوں نے تنقید اور افسانہ نگاری بھی شروع کر لی۔اسلم شہیدی اور جانِ عالم دونوںکو جہاں بھی جانا ہوتا ،اکٹھے جاتے۔ شہر کی ادبی محفلیں ہوتیں، تو ان کے افسانوں اور شاعری کا تذکرہ ہوتا، مشاعرہ ہوتا تو ان کے خوبصورت کلام کو نظر انداز کرنا مشکل…

Read More

کو ّے ۔۔۔ حامد یزدانی

کوّے ۔۔۔۔۔ طویل اور مہیب راہداری عبور کر کے میں ایک دالان میں جا نکلتا ہوں جس کے گرد اونچی فصیلیں ایستادہ ہیں۔ ایک عجیب دھند چھائی ہوئی ہے۔ نہ صاف اجالا ہے نہ صاف اندھیرا ۔سامنے ایک سیاہ محرابی بےکواڑدروازہ نُما ہے۔ اچانک عقب سے کَھٹ کی آواز آتی ہے۔ میں مُڑ کر دیکھتا ہوں۔ میرے آنے کا راستہ بھی دیوار ہو چکا ہے۔ بھیانک اندھیرا چھانے لگتا ہے اور یکا یک ہر سمت سے بےسمت چیخیں بلندہونےلگتی ہیں۔ادھرسیاہ محرابی دروازہ نُما سے ایک ہیولہ برآمد ہوتا ہے؛ ماحول…

Read More

تیس منٹ ۔۔۔ حامد یزدانی

تیس منٹ ۔۔۔۔۔۔ ’’لو بھئی، سن انیس سو پچاسی کے تین سو پینسٹھ دنوں میں سے آخرِ کارایک اور دن اپنی تمام تر بیزار کن مصروفیات کے ساتھ اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ جنگ کے دفتر تابشؔ سے ملاقات ہی تو آج کی آخری باقاعدہ مصروفیت تھی۔ سو، وہ بھی رات گیارہ بج کر بیس منٹ پر تمام ہوئی۔۔۔اور اب خیر سے گھر واپسی کا سفر۔۔۔لیکن آپ جناب یہاں کیسے۔۔۔؟‘‘ ’’مجھ سے ملنے؟ اور اِس وقت۔۔۔؟‘‘ ’’ارے نہیں، مجھے بُرا ہرگز نہیں لگا۔۔۔بس ذرا حیرانی ہوئی۔ دیکھیے، سامنے شملہ پہاڑی…

Read More

ماں جی ۔۔۔۔ قدرت اللہ شہاب

ماں جی ۔۔۔۔۔ ماں جی کی پیدائش کا صحیح سال معلوم نہ ہو سکا۔ جس زمانے میں لائل پور کا ضلع نیا نیا آباد ہو رہا تھا، پنجاب کے ہر قصبے سے غریب الحال لوگ زمین حاصل کرنے کے لئے اس نئی کالونی میں جوق در جوق کھنچے چلے آ رہے تھے۔ عرف عام میں لائل پور، جھنگ، سرگودھا وغیرہ کو ’’بار‘‘ کا علاقہ کہا جاتا تھا۔ اس زمانے میں ماں جی کی عمر دس بارہ سال تھی۔ اس حساب سے ان کی پیدائش پچھلی صدی کے آخری دس پندرہ…

Read More

سزاوار ۔۔۔۔۔۔ ساجد ہدایت

سزاوار ۔۔۔۔۔۔ وہ آج بھی ہمیشہ کی طرح بہت مقدس نظر آرہا تھا۔۔۔۔ چمکتے چہرے اور گہری اداس آنکھوں کے ساتھ ایک مکمل متاثرکرنے والی تصویر سا۔۔۔زاویوں میں منقسم اجلے راستوں کی طرح سا۔۔۔۔ اس نے بیٹھتے ہی سب پر ایک اچٹتی ہوئی نظرڈالی اور بغیرکوئی تمہید باندھے اپنی بات شروع کر دی!!! "جو ہاتھ اپنی ہی صلیب اٹھائے ہوئے ہوں۔۔۔۔ تو وہ کسی کا ہاتھ کیا تھامیں گے۔۔۔ جو آنکھیں اپنا پہلوٹھی کا خواب مرتا دیکھ لیتی ہیں، حیرت سے منجمد ہو کر بےخواب ہو جاتی ہیں۔۔۔۔۔خواب آنکھوں کے…

Read More

موت کے تعاقب میں ۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹرغافرشہزاد

موت کے تعاقب میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اس وقت دفتر میں تھا کہ جب اسے بیوی نے ٹیلیفون پر اطلاع دی کہ اس کی دس ماہ کی بیٹی کی طبیعت خراب ہے، اور اسے رک رک کر سانس آ رہا ہے۔ یہ خبر اس کے لیے خلاف توقع نہ تھی۔ وہ صبح سے بار بار اپنے موبائل فون کی سکرین کی جانب دیکھتا تھا کہ جب وہ روشن ہو جاتی۔ دو تین ایس ایم ایس اس کے دوستوں کی جانب سے تھے جنھوں نے اسے دو دن بعد آنے والی عید…

Read More