راجہ نوشاد علی خان ۔۔۔ آج تو آپ کے بیمار کا حال اچھا ہے

ماہ اچھا ہے کہ وہ بدر کمال اچھا ہے دیکھنا ہے یہ ہمیں کس کا جمال اچھا ہے آپ کی چشمِ عنایت نے سنبھالا اس کو آج تو آپ کے بیمار کا حال اچھا ہے حال جب ہوگا برا دیکھنے وہ آئیں گے لوگ کہتے ہیں برا جس کو وہ حال اچھا ہے جس سے ملتے ہیں ملاتے ہیں اجل سے اس کو چشمِ قاتل میں تمہاری یہ کمال اچھا ہے وصل جب اس بتِ کافر کا میسر ہو جائے روز وہ اچھا، وہ ماہ اچھا، وہ سال اچھا ہے…

Read More

واحد انصاری برہانپوری ۔۔۔ سب دلالوں میں طوائف کا دلال اچھا ہے

سب دلالوں میں طوائف کا دلال اچھا ہے جس طرح کا بھی کسی میں ہو کمال اچھا ہے دیکھ کر شکل طبیبوں کی جب آتی ہے ہنسی وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے جیب خالی ہو تو پھر شہد لگے زہر ہمیں جی میں کہتے ہیں کہ مفت آئے تو مال اچھا ہے خوش ہو اے دل کے ملے گی تجھے دولت غم کی اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے کوئی احمق ہی نہ مانے گا اگر میں یہ کہوں ساغرِ جم سے…

Read More

رنج حیدر آبادی ۔۔۔۔ ہم مرے جاتے ہیں کمبخت کا حال اچھا ہے

دل مرا لے کے یہ کہتے ہیں کہ مال اچھا ہے منتیں خوب ہیں اور ان کا خیال اچھا ہے وہ عیادت کو مری آ کے یہ فرماتے ہیں شکر صد شکر کہ بیمار کا حال اچھا ہے میں یہ کہتا ہوں کہ آغازِ محبت ہے خراب وہ یہ کہتے ہیں محبت کا مآل اچھا ہے ساتھ یوسف کے تجھے مصر میں گر  لے جاتے انگلیاں تیری طرف اٹھتیں یہ مال اچھا ہے تیری صورت سے میں دوں کیا مہِ کامل کو مثال اس سے سو درجہ ترا حسن و…

Read More

نسیم نیازی ۔۔۔ آپ آ جائیں تو بیمار کا حال اچھا ہے

نہ جواب اچھا ہے، اے دل! نہ سوال اچھا ہے بس وہ جس حال میں رکھے وہی حال اچھا ہے کون سا رنگ ہے جو اس پہ نہیں پھبتا ہے کیونکہ ہر رنگ میں وہ رنگِ جمال اچھا ہے جس طرف اٹھتی ہیں دیوانہ بنا دیتی ہیں آپ کی نظروں میں صاحب یہ کمال اچھا ہے آپ کو دیکھ کے بیمار شفا پائے گا آپ آ جائیں تو بیمار کا حال اچھا ہے میری قسمت کی لکیروں کو بدل کر مجھ سے وہ ابھی کہہ کے گئے ہیں کہ یہ…

Read More

محمد یوسف راسخ ۔۔۔ حسن اچھا ہے محمد کا کمال اچھا ہے  

حسن اچھا ہے، محمد کا کمال اچھا ہے جو خدا کو بھی ہے پیارا وہ جمال اچھا ہے بزمِ کونین مرتب ہوئی تیری خاطر وقف ہے تیرے لئے اس میں جو مال اچھا ہے مجھ سے پوچھے تو کوئی تیرے غلاموں کا عروج بادشاہوں سے بھی رتبے میں بلال اچھا ہے غم اٹھانے کی ہے عادت مری طبعِ ثانی میں تو کہتا ہوں کہ دنیا میں ملال اچھا ہے قصۂ طور سے واقف ہے زمانہ سارا کوئی کس منہ سے کہے شوقِ جمال اچھا ہے بزم میں دیکھ کے حسرت…

Read More

ہاجر دہلوی ۔۔۔۔ آپ جب سامنے بیٹھے ہیں تو حال اچھا ہے  

سوچتا ہوں کبھی حوروں کا خیال اچھا ہے کبھی کہتا ہوں کہ اس بت کا جمال اچھا ہے مجھ سے کہتے ہیں کہو عشق میں حال اچھا ہے چھیڑ اچھی ہے یہ اندازِ سوال اچھا ہے نہ ادائیں تری اچھی نہ جمال اچھا ہے اصل میں چاہنے والے کا خیال اچھا ہے دیکھ کر شکل وہ آئینہ میں اپنی بولے کون کہتا ہے کہ حوروں کا جمال اچھا ہے جو ہنر کام نہ آئے تو ہنر پھر کیسا کام جو وقت پر آئے وہ کمال اچھا ہے وہ جوانی وہ…

Read More

نظر لکھنوی ۔۔۔ موسمِ گل تو یہ بس سال بہ سال اچھا ہے ۔ (دو غزلہ)  

فتنہ زا فکر ہر اک دل سے نکال اچھا ہے آئے گر حسنِ خیال اس کو سنبھال اچھا ہے میرے احساسِ خودی پر نہ کوئی زد آئے تو جو دے دے مجھے بے حرف سوال اچھا ہے آپ مانیں نہ برا گر تو کہوں اے ناصح صاحبِ قال سے تو صاحب حال اچھا ہے بے خیالی نہ رہے خام خیالی سے بچو دل میں بس جائے جو ان کا ہی خیال اچھا ہے تیرے رخ پر ہو مسرت تو مرا دل مسرور تیرے چہرے پہ نہ ہو گردِ ملال اچھا…

Read More

مرزا غالب ۔۔۔۔ حسنِ مہ گرچہ بہ ہنگامِ کمال اچھا ہے

حسنِ مہ گرچہ بہ ہنگامِ کمال اچھا ہے اس سے میرا مہہ خورشید جمال اچھا ہے بوسہ دیتے نہیں اور دل پہ ہے ہر لحظہ نگاہ جی میں کہتے ہیں کہ مفت آئے تو مال اچھا ہے اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا ساغرِ جم سے مرا جامِ سفال اچھا ہے بے طلب دیں تو مزا اس میں سوا ملتا ہے وہ گدا جس کو نہ ہو خوئے سوال اچھا ہے ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا…

Read More

تلوک چند محروم ۔۔۔ ان کے آنے سے جو بیمار کا حال اچھا ہے

طائرِ دل کے لیے زلف کا جال اچھا ہے حیلہ سازی کے لیے دانۂ خال اچھا ہے دل کے طالب نظر آتے ہیں حسیں ہر جانب اس کے لاکھوں ہیں خریدار کہ مال اچھا ہے تاب نظارہ نہیں گو مجھے خود بھی‘ لیکن رشک کہتا ہے کہ ایسا ہی جمال اچھا ہے دل میں کہتے ہیں کہ اے کاش نہ آئے ہوتے ان کے آنے سے جو بیمار کا حال اچھا ہے مطمئن بیٹھ نہ اے راہروِ راہِ عروج ترا رہبر ہے اگر خوفِ زوال اچھا ہے نہ رہی بے…

Read More

احمد فراز ۔۔۔۔ کس برہمن نے کہا تھا کہ یہ سال اچھا ہے

نہ شب و روز ہی بدلے ہیں نہ حال اچھا ہے کس برہمن نے کہا تھا کہ یہ سال اچھا ہے ہم کہ دونوں کے گرفتار رہے‘ جانتے ہیں دامِ دنیا سے کہیں زلف کا جال اچھا ہے میں نے پوچھا تھا کہ آخر یہ تغافل کب تک مسکراتے ہوئے بولے کہ سوال اچھا ہے لذتیں قرب و جدائی کی ہیں اپنی اپنی مستقل ہجر ہی اچھا نہ وصال اچھا ہے رہروانِ رہِ الفت کا مقدر معلوم ان کا آغاز ہی اچھا نہ مآل اچھا ہے دوستی اپنی جگہ پر…

Read More