متن و سنَد سے اور نہ تسطیر سے اُٹھے
جھگڑے تمام حلقۂ تعبیر سےاُٹھے
اِک جبر کا فریم چڑاتا ہے میرا مُونہہ
پردہ جب اختیار کی تصویر سے سےاُٹھے
فکر ِسخن میں یوں بھی ہوا ہے کبھی کہ ہم
بیٹھے بٹھائے بارگہِ میر سے سےاُٹھے
اس دل میں اک چراغ تھا سو وہ بھی گُل ہوا
ممکن ہے اب دھواں مری تحریر سےاُٹھے
پلکوں پہ یہ ڈھلکتے ہوئے اشک مت بنا
ممکن ہے اتنا بار نہ تصویر سے سےاُٹھے
Related posts
-
عنبرین خان ۔۔۔ میری امید کا سرچشمہ ہیں آنکھیں اس کی
میری امید کا سرچشمہ ہیں آنکھیں اس کی ان سے پڑھ لیتی ہوں سب شوق کی... -
احمد جلیل ۔۔۔ دشتِ ویران تو اب اتنا بھی ویران نہ ہو
دشتِ ویران تو اب اتنا بھی ویران نہ ہو مجھ کو لگتا ہے کہیں گھر کا... -
مسعود احمد ۔۔۔ ابھی تک مارے مارے پھر رہے ہیں
ابھی تک مارے مارے پھر رہے ہیں یہ کیسے دن ہمارے پھر رہے ہیں کسی سے...