مجید امجد کی نظم نگاری ۔۔۔ شاہد شیدائی

مجید امجد کی نظم نگاری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مجید امجد کا شعری اطلس دھرتی کے تار و پود سے تیار ہوا ہے جس کی ملائمت اَور سوندھے پن نے ہر طرف اپنا جادو جگا رکھا ہے۔ اُن کی لفظیات اَور اِمیجری میں ہمارے اِرد گرد پھیلے شہروں‘ کھیتوں کھلیانوں‘ جنگلوں‘ پہاڑوں‘ میدانوں‘ دریاؤں اَور سبزہ زاروں کی خوشبو کچھ اِس انداز سے رچی بسی ہے کہ تخلیقات کا مطالعہ کرتے وقت قاری کو اپنا پورا وجود مہکتے ہوئے محسوس ہوتا ہے۔
مجید امجد نے اگرچہ غزل بھی کہی مگر اُن کی اصل پہچان جدید نظم ہے جس میں اُنھوں نے اپنی ذات کے حوالے سے کائنات کے گہرے مشاہدے کو سمیٹا ہے۔ اُن کی نظمیں اِنسانی دُکھ اَور کلچر اَور تہذیب کے ساتھ ساتھ اِس دُنیا میں کج فکری سے پھیلے ہوئے تضادات کا اِحاطہ کرتی ہیں۔ اُن کے موضوعات کسی منصوبہ بندی کا نتیجہ نہیں ہوتے۔ اُن کی نظم کی ہیئت‘ روانی اَور اُس میں موجود تمثال کاری کا فن‘ موضوع کو بجائے خود کسی ایسے نکتے پر مرکوز کر دیتا ہے جہاں سے شعری جمالیات کے چشمے جاری ہوتے ہیں۔
مجید امجد نے اِبتدا میں پابند اَورمعرا نظمیں کہیں مگر آہستہ آہستہ وہ آزاد نظم کی طرف مائل ہوتے گئے۔ اِبتدائی نظموں میں کہیں کہیں ترقی پسندی کے رُجحانات د ِکھائی دیتے ہیں مگر اُس اَنداز میں نہیں جس میں ترقی پسندوں نے شعر و اَدب کو نعرہ یا پارٹی کا مینی فیسٹو بنا دیا تھا۔ کون نہیں جانتا کہ ہر شاعر ظلم اَور نا اِنصافی کے خلاف ہمیشہ آواز بلند کرتا ہے مگر فرق یہ ہے کہ سب کا طرزِ اِظہار جدا جدا ہوتا ہے۔ مجید امجد نے اپنی ایسی نظموں کو قلبی واردات میں ڈھال کر پیش کیا ہے اَور اُن کا دُکھ اُن کی ذات کا حصہ بن کر شعری قالب میں ڈھلتا ہے۔ مثلاً نظموں کے یہ ٹکڑے ملاحظہ فرمائیں:

یہ ہات‘ گلبنِ غمِ ہستی کی ٹہنیاں
اے کاش‘ اِنھیں بہار کا جھونکا نصیب ہو
ممکن نہیں کہ اِن کی گرفت ِ تپاں سے تم
تا دیر اپنی ساعدِ نازک بچا سکو
تم نے فصیلِ قصر کے رخنوں میں بھر تو لیں
ہم بے کسوں کی ہڈیاں لیکن یہ جان لو
اے وارثان‘ طرّۂ کلاہ کے
سیلِ زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر ہے!

(درسِ ایام)

آنکھوں میں ممکنات کی طغیانیاں لیے
تو ساحلِ حیات پہ حیراں کھڑی رہی
دُور اِک تڑپتی ناؤ اُفق کے نشیب میں
موجوں کی سیڑھیوں سے اُترتی چلی گئی

(اَور آج سوچتا ہوں)

ہاں اِسی طرح سرِ سطحِ سوادِ ایام
بارہا جنبشِ یک موج کے ہلکورے میں
بہہ  گئے غول ِ بیاباں کے گرانڈیل اَجسام
بارہا تند ہوائیں چلیں‘ طوفاں آئے

لیکن اِک پھول سے چمٹی ہوئی تتلی نہ گری

(رُودادِ زمانہ)

کسی کے ہانپتے اَرماں جنھیں جگہ نہ ملی
نظامِ زر کے چمکتے ہوئے قرینوں میں
اب ایک دوزخِ احساس بن کے کھولتے ہیں
مرے تڑپتے اِرادوں کے آبگینوں میں!

(جہانِ قیصر و جم میں)

اُوپر جن نظموں کے اِقتباس پیش کیے گئے‘ وہ ۱۹۵۰ء تا ۱۹۵۲ء تک کی تخلیقات ہیں اَور آپ جانتے ہی ہیں کہ وہ دَور ترقی پسندی کا خاص زمانہ تھا جس کی رَو میں تقریباً ہر شاعر بہہ گیا تھا۔ مگر آپ نے دیکھا کہ مجید امجد کا اسلوب ترقی پسندوں کے انداز سے کس قدر مختلف ہے ۔۔۔ نہ بلند آہنگی‘ نہ بھوک افلاس کا رونا دھونا‘ نہ مار دھاڑ کی اُمنگ ۔۔۔ اُنھوں نے خارجی مظاہر کا مشاہدہ کیا‘ اُنھیں اپنی ذات میں اُتارا اَور دُروں بینی میں شیر و شکر کرکے‘ خالص شاعری کے سانچے میں ڈھال کر پیش کر دیا۔
ایک اچھے شاعر کے کلام میں اِرتقا کی جھلکیاں عام طور پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ اِسی موضوع کو درج ذیل مثالوں میں دیکھیے اَور اَندازہ لگائیے کہ مجید امجد کی شاعری نے اِرتقائی مراحل کس خوبی سے طے کیے ہیں:

کون مٹائے اُس کے ماتھے سے یہ دُکھوں کی ریکھ
ہل کو کھینچنے والے جنوروں جیسے اُس کے لیکھ
تپتی دُھوپ میں تین بیل ہیں‘ تین بیل ہیں دیکھ!

(ہڑپے کا کتبہ ۔۔۔ ۱۹۵۹ء)

مرے ساتھ رَو میں ہیں لوگوں کے جتنے رو یّے‘
یہ سب کچھ‘ یہ سارے قضیے
غرض مَندیاں ہی غرض مَندیاں َہیں‘
یہی کچھ ہے اِس رہ گزر پر متاعِ سواراں
میں پیدل ہوں‘ مجھ کو جلوسِ جہاں سے
اِنھیں ٹھوکروں کی روایت ملی ہے!!

(جلوسِ جہاں ۔۔۔ ۱۹۶۴ء)

کالی بجری کے روغن میں جینے والے اِس
معصوم لہو کی کون سنے گا
ممتا بک بھی چکی ہے چند ٹکوں میں
قانون آنکھیں میچے ہوئے ہے‘
قاتل پہیے بے پہرا ہیں!

(ایکسیڈنٹ ۔۔۔ ۱۹۶۸ء)

اُن کی شاعری میں اِرتقا کی مثالیں جا بجا بکھری پڑی ہیں۔ ’’توسیعِ شہر‘‘ اَور ’’دروازے کے پھول‘‘ نامی دو (۲) نظموں کی قرأت کیجیے اَور ملاحظہ فرمائیے کہ اوّل الذکر پابند نظم میں درختوں کے کٹنے سے وہ کتنے دُکھی ہوئے ہیں‘ اَور ثانی الذکر آزاد نظم کی کہانی کے مطابق جب اِس کے کردار صبح صبح اپنے اپنے کام پر جاتے تو سبز سڑک کے موڑ پر تازہ دم پھولوں کے رنگ برنگ تختے اُن سے ہم کلام ہوا کرتے تھے‘ اَور شام کو اُن کی واپسی پر وہی پھول نیند اوڑھے اُن سے کہتے کہ وہ بھی جلد اپنے اپنے اِینٹوں سے چنے ہوئے سپنوں میں پہنچ جائیں اَور اگلی صبح پھر ملاقات ہوگی۔ لیکن شاعر کو قلق ہے کہ اَب وہ تختے اُجڑ چکے ہیں‘ کوٹھی کے دروازے پر چکنی بجری اَور تھرکتے چمکیلے پہیے ہیں۔ کوٹھی کا مالک ایک وکیل ہے جس سے شاعر گلہ کرتا ہے کہ وہ تو راحتِ حق کی خاطر لڑنے والا جلیل شخص تھا مگر اُس نے اِتنا بھی نہ سوچا کہ لاکھوں کے حصے کی محنت کش خوشیوں کی پاسداری کرنا اُس کا فرض تھا:

آج کھڑا میں سوچتا ہوں اِس گاتی نہر کے دوار
اِس مقتل میں صرف اِک میری سوچ لہکتی ڈال
مجھ پر بھی اَب کاری ضرب اِک‘ اے آدم کی آل!

(توسیع ِ شہر ۔۔۔ ۱۹۶۰ء)

صاحب‘ تم نے تو اِتنا بھی نہیں دیکھا
یہ سب پُھول تو خوشیاں تھیں ۔۔۔ محنت کش خوشیاں
اَور یہ لاکھوں کا حصہ تھیں
تم نے تو اِتنا بھی نہیں سوچا
اے رے‘ ہم لوگوں کی راحتِ حق کی خاطر
لڑنے والے وکیلِ جلیل!!

(دروازے کے پھول ۔۔۔ ۱۹۷۰ء)

آس پاس بکھرےجھمیلوں پر جب مجید امجد روشنی ڈالتے ہیں تو وہ وہاں پر موجود کرداروں کی تصویر کشی اِس مہارت سے کرتے ہیں کہ پیکر تراشی کرتے ہوئے اُن کا کوئی پہلو شاعر کی نظروں سے اوجھل نہیں رہتا اَور وہ قاری کو اُن کی نفسیات تک سے رُوشناس کرا دیتے ہیں۔ مثلاً:
وہ باو ٔلر ایک مہ وَشوں کے جمگھٹوں میں گھر گیا
وہ صفحہ ٔ بیاض پر بصد غرور کلکِ گوہریں پھری
حسین کھلکھلاہٹوں کے درمیاں وکٹ گری!

(آٹو گراف ۔۔۔ ۱۹۵۵ء)

قریب آ ۔۔۔ یہ بدن‘ میری زندگی کا طلسم
تری نگاہ کی چنگاریوں کا پیاسا ہے
جو تو کہے تو یہی نرم‘ لہریا آنچل
یہی نقاب ۔۔۔ مری چٹکیوں میں اٹکی ہوئی
یہی اَدا ۔۔۔مری انگڑائیوں سے مسکی ہوئی
یہ آبشار‘ ڈھلانوں سے گر بھی سکتی ہے!
بس ایک شرط ۔۔۔ یہ گوہر سطور دستاویز
ذرا کوئی یہ وثیقہ رقم کرے تو سہی
اکائیوں کے اُدھر‘ جتنے دائرے ہوں گے
اِدھر بھی اُتنے ہی عکس اِن برہنہ شعلوں کے!

(ایکٹریس کا کنٹریکٹ ۔۔۔ ۱۹۶۳ء)

کردار نگاری کے سلسلے میں اُن کی نظم ’’پنواڑی‘‘ کو ہم اُردو کی چند بہترین نظموں میں شمار کر سکتے ہیں جس میں اُنھوں نے پنواڑی اَور اُس کی دُکان کا اِتنا اعلیٰ نقشہ کھینچا ہے کہ آنکھوں کے سامنے ایک فلم چلتے ہوئے محسوس ہوتی ہے:

عمر اُس بوڑھے پنواڑی کی پان لگاتے گزری
چونا گھولتے‘ چھالیا کاٹتے‘ کتھ پگھلاتے گزری
سگرٹ کی خالی ڈبیوں کے محل سجاتے گزری
کتنے شرابی مشتریوں سے نین ملاتے گزری
چند کسیلے پتوں کی گتھی سلجھاتے گزری

(پنواڑی ۔۔۔ ۱۹۴۴ء)

نظم کے آخری حصے میں پنواڑی کے دیہانت کے بعد اُس کے کمسن بالے کو پان لگاتے دِکھایا گیا ہے اَور شاعر کا دل جس کربناک صورتِ حال سے دوچار ہوتا ہے‘ وہ اِن مصرعوں سے ہویدا ہے:

صبح بھجن کی تان منوہر جھنن جھنن لہرائے
ایک ِچتا کی راکھ ہَوا کے جھونکوں میں کھو جائے
شام کو اُس کا کمسن بالا بیٹھا پان لگائے
جھن جھن‘ ٹھن ٹھن‘ چونے والی کٹوری بجتی جائے
ایک پتنگا دیپک پر جل جائے‘ دُوسرا آئے

(پنواڑی ۔۔۔ ۱۹۴۴ء)

مجید امجد کو اَپنے اِرد گرد جو مناظر بکھرے نظر آتے ہیں‘ وہ اُنھیں لفظوں کی تصویروں میں یوں قید کر لیتے ہیں کہ پورے کینوس پر مطلوبہ منظر کی جزئیات تک دکھائی دیتی ہیں۔ اَور پھر جب جگہ جگہ اُن کے دُکھی دل کے ڈوبنے کا منظر ٹمٹماتے ستاروں سے عیاں ہوتا ہے تو شعری پیکر ایک شہکار کی شکل اِختیار کر لیتا ہے کہ اُس میں باریک سے باریک شے بھی اپنے وجود کا اعلان کرتے ہوئے محسوس ہوتی ہے۔ اِس ضمن میں درج ذیل مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں:

یہ صہباے اِمروز جو صبح کی شاہزادی کی مست انکھڑیوں سے ٹپک کر
بدور حیات آ گئی ہے ۔۔۔ یہ ننھی سی چڑیاں جو چھت میں چہکنے لگی ہیں
ہوا کا یہ جھونکا جو میرے دریچے میں تلسی کی ٹہنی کو لرزا گیا ہے
پڑوسن کے آنگن میں‘ پانی کے نلکے پہ یہ چوڑیاں جو چھنکنے لگی ہیں
یہ دُنیائے اِمروز میری ہے‘ میرے دل ِ زار کی دھڑکنوں کی امیں ہے
یہ اشکوں سے شاداب دو چار صبحیں‘ یہ آہوں سے معمور دو چار شامیں
اِنھیں چلمنوں سے مجھے دیکھنا ہے وہ جو کچھ کہ نظروں کی زد پر نہیں ہے!!

(اِمروز ۔۔۔ ۱۹۴۵ء)

نٹھا پہنے اِک متوالا بالا ۔۔۔ رہڑی والا
موڑ موڑ پہ جیون رُت کی زخمی کلیاں بانٹے
جینے کے یہ سارے جتن انمول سمے کی مایا
سدا رہیں اِن سدا بہار دکھوں کے رُوپ سہانے
تو بھی رُک کر اِس بھنڈار سے اپنی جھولی بھر لے
تیری تڑپ کا اَنت یہی ہے‘ اے دل، اے دیوانے!

(جیون دیس ۔۔۔ ۱۹۵۸ء)

بے جان چیزوں کی منظر کشی میں بھی مجید امجد خاص مہارت رکھتے ہیں ۔۔۔ پیشکش کا اَنداز اَور شاعر کا محاکاتی وجدان اُن میں جان ڈال دیتا ہے اَور بے جان اَشیا یوں نظر آتی ہیں جیسے کسی اِنسان کے ساق و بازو شل ہو گئے ہوں اَور وہ چلنے پھرنے کے قابل نہ رہا ہو۔ اُن کی نظموں میں سے یہ ٹکڑے اِس موضوع کو خاص طور سے نشان زد کرتے ہیں:

دیکھ پھر آج بھی اِس نگری میں‘
شام کی کرنیں تیرے ساتھ چلی ہیں‘
تیرے ساتھ جلی ہیں
دیکھ اَب کہیں کہیں اِن لمبی لال لووں کی
لڑیاں بجھ کر‘ رستوں سے
پیو ست پڑی ہیں
کہیں کہیں یہ زرد سلگتے تیکھے بان دلوں میں
چبھ کر ٹوٹ گئے ہیں!

(ایک شام ۔۔۔ ۱۹۶۳ء)

جانے والے گھر کی چاہت سے تہی پہلو نہ تھے
اِتنے بے قابو نہ تھے
روکتا کون‘ اِس جھکی محراب کے بازو نہ تھے!

اِک اٹل ہونی کی زنجیروں میں جکڑے قافلے
ساتھ لے جاتے اِسے
بات صرف اِتنی کہ اِس دیوار کے پاؤں نہ تھے

(متروکہ مکان ۔۔۔ ۱۹۶۵ء)

تمثال سازی کا کمال تو اُن کی ہر نظم کا خاصہ ہے۔ شاعر کے محاکاتی اسلوب کی اِنتہا یہ ہے کہ ہر نظم کے کردار چلتی پھرتی تصویروں کی طرح اپنے دکھ کا اِظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں:

ذخار سمندر سوکھے ہیں‘ پر ہول چٹانیں پگھلی ہیں
دھرتی نے ٹوٹتے تاروں کی جلتی ہوئی لاشیں نگلی ہیں
پہنائے زماں کے سینے پر اِک موج انگڑائی لیتی ہے
اِس آب و گِل کی دلدل میں اِک چاپ سنائی دیتی ہے
اِک تھرکن سی‘ اِک دھڑکن سی آفاق کی ڈھلوانوں میں کہیں
تانیں جو ہمک کر ملتی ہیں‘ چل پڑتی ہیں‘ رکتی ہی نہیں
اِن راگنیوں کے بھنور بھنور میں صد ہا صدیاں گھوم گئیں
اِس قرن آلود مسافت میں لاکھ آبلے پھوٹے‘ دیپ بجھے

(راتوں کو ۔۔۔ ۱۹۴۹ء)

بیس برس سے کھڑے تھے جو اِس گاتی نہر کے دوار
جھومتے کھیتوں کی سرحد پر‘ بانکے پہرے دار
گھنے‘ سہانے‘ چھاؤں چھڑکتے‘ بُور لدے چھتنار
بیس ہزار میں بک گئے سارے ہرے بھرے اشجار
جن کی سانس کا ہر جھونکا تھا ایک عجیب طلسم
قاتل تیشے چیر گئے ان ساونتوں کے جسم

(توسیعِ شہر ۔۔۔ ۱۹۶۳ء)

ہواؤں پہ سایوں کے چھدرے سے دھبے
فضاؤں میں صدہا سفید و سیہ
آفتابوں کے بکھرے سے ریزے
سرِ خاک بے ربط‘ بے سطر خاکے
یہ سب کچھ بس اِک دو قدم تک
پھر آگے وہی دُھوپ‘ شاداب دردوں کی جانب
ہمکتی ہوئی‘سنگریزوں پہ بہتی ہوئی دُھوپ
حدِ عدم تک!!

(یہ سر سبز پیڑوں کے سایے ۔۔۔ ۱۹۶۵ء)

ہر سال اِن صبحوں کے سفر میں
۔۔۔ اِک د ِن اَیسا بھی آتا ہے
جب پل بھر کو
ذرا سرک جاتے ہیں‘
میری کھڑکی کے آگے سے‘ گھومتے گھومتے
سات کروڑ کُرے
اور سُورج کی
پیلے پھولوں والی پھلواڑی سے
اِک پتی اُڑ کر‘
میرے میز پہ آگرتی ہے

(ہر سال اِن صبحوں ۔۔۔ ۱۹۷۰ء)

کسی نا مانوس لفظ کو مجید امجد اپنی شاعری میں یوں اِستعمال کر جاتے ہیں جیسے وہ لفظ اَزل سے شعری ماحول میں پل کر مفہوم و معنی کی منزل تک پہنچا ہو۔ دیکھیے‘ یہاں ’’کنستر‘‘ کا لفظ کس خوبی سے شعری قالب میں ڈھل گیا ہے۔ غالباً یہ لفظ پہلی اَور آخری بار کسی شعری تخلیق میں اِستعمال ہوا ہے:

کیسے یہ شعر اور کیا اِن کی حقیقت
نا صاحب‘ اِس اپنے لفظوں بھرے کنستر سے
چلّو بھر کر ‘ بھیک کسی کو دے کر
ہم سے اپنے قرض نہیں اُتریں گے
اور یہ قرض اَب تک کس سے اور کب اُترے ہیں!

(جن لفظوں میں…۱۹۷۳ء)

اَور درج ذیل ٹکڑے میں ’’ہیرے کی کنی کا چوگا‘‘ ایسی ترکیب اِستعمال کرکے شاعر نے لفظوں کی کیسی عمدہ مالا پروئی ہے‘ ملاحظہ فرمائیے:

یہاں کہاں آ ٹھہری‘چڑیا‘ اے ری چڑیا
یہ تو میرے دل کا پنجرا ہے‘ تو اِس میں
اپنی ٹوٹی پھوٹی خوشیاں ڈھونڈنے آئی ہے؟
پگلی‘ یہاں تو ہے ہیرے کی کنی کا چوگا
اور اِک زخمی سانس
اِس پنجرے کی انگنائی ہے!

(اے ری چڑیا ۔۔۔ ۱۹۶۹ء)

دیے سے دیا جلنے کی مثالیں مختلف شاعروں کی تخلیقات میں عام طور سے دیکھی جا سکتی ہیں۔ مجید امجد کی نظموں میں موضوعات کی رنگا رنگی اِس قدر فزوں تر ہے کہ کئی مشہور شعر پارے‘ اُن کے خیالات سے متاثر نظر آتے ہیں۔ مثلاً احمد ندیم قاسمی کا یہ مشہور شعر:

اَنداز ہُو بہ ہُو تری آوازِ پا کا تھا
دیکھا نکل کے گھر سے تو جھونکا ہوا کا تھا

جیسے مجید امجد کی نظم ’’دستک ۔۔۔ ۱۹۴۳ء‘‘ کے اِس آخری ٹکڑے سے مستعار ہو:

تم نے دروازہ کھٹکھٹایا تھا

کس کی دستک تھی‘ کون آیا تھا؟
کس نے نیندوں کو میری ٹوکا تھا

کوئی جھونکا تھا‘ کوئی دھوکا تھا؟

تاہم احمد ندیم قاسمی کے شعر سے کسی طور یہ محسوس نہیں ہوتا کہ اُس میں مجید امجد کے خیال کو جوں کا توں پیش کر دیا گیا ہے‘ اُن کا شعر اپنی جگہ ایک عمدہ شعر ہے؛ لیکن اِس کا کیا کیا جائے کہ وصی شاہ نے اُن کی نظم ’’ بُندا‘‘ کے نہ صرف خیال بلکہ احساس‘ اسلوب‘ متن‘ بحر اَور بنت کو بھی ہمہ تن اَپنی نظم ’’کنگن‘‘ میں سمیٹ لیا:

کاش میں تیرے حسیں ہاتھ کا کنگن ہوتا (وصی شاہ)

کاش میں تیرے ُ ِبن گوش میں ُبندا ہوتا (مجید امجد)

واضح رہے کہ مجید امجد کی نظم ’’ ُبندا‘‘ ۱۹۳۹ء میں تخلیق ہوئی تھی جبکہ وصی شاہ کی نظم ’’کنگن‘‘ زمانہ ٔحال کی پیداوار ہے۔ اَورقارئین کے لیے یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ مجید امجد کی نظم ’’شاعر ۔۔۔ ۱۹۳۸ء‘‘ کا ایک بند یوں ہے:

یہ محلوں‘ یہ تختوں‘ یہ تاجوں کی دُنیا
گناہوں میں لتھڑے رواجوں کی دُنیا
محبت کے دُشمن سماجوں کی دُنیا

جسے ساحر لدھیانوی نے‘ شاعر کی اِجازت کے بغیر‘ اپنی طرف سے ٹیپ کا مصرع ’’یہ دُنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے‘‘ لگا کر‘ ایک فلمی گیت میں شامل کر لیا تھا اَور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی تھی۔
یہ تو تھا مجید امجد کی نظم نگاری پر تبصرہ۔ آ ِخر میں ایک غلط فہمی کا اِزالہ کرنا چاہوں گا۔ ہمارے بیشتر شعرا کرام فکر مند ہیں کہ اِس شاعر کی آخری دور کی نظمیں وزن میں نہیں ہیں یعنی نثری نظمیں ہیں (یہ بات آج تک تحریری طور پر تو میری نظر سے نہیں گزری مگر اکثر محفلوں میں زبانی طور پر یہ باتیں سننے میں ضرور آتی ہیں)۔ اِس ضمن میں عرض ہے کہ مجید امجد نہ تو عروض سے نا َبلد شاعر تھے اَور نہ ہی اُنھیں نثری نظم کہنے کا شوق تھا۔ اُن کی تمام نظموں کو مدیران نے ’’نظم‘‘ کے کالموں ہی میں جگہ دی نہ کہ ’’نثری نظم‘‘ کے گوشوں میں! دُوسرے‘ مجید امجد کا اَسلوب اُن کے ہم عصروں اَور دیگر جدید شاعروں سے بالکل مختلف ہے۔ اُنھوں نے اقبال کی طرح جدید اُردو نظم کا سٹرکچر ہی تبدیل کر دیا ہے۔ اقبال نے روایتی زبان کو بدلتے ہوئے اُس میں وہ طنطنہ بھر دیا تھا جس کے ردھم کے ساتھ قاری بہتا چلا جاتا تھا؛ مگر مجید امجد نے سادہ زبان میں ہلکی ہلکی لہروں کو اِستعمال کیا ہے جس کے سحر میں گم ہونے کے لیے شاعر کے سے دلِ درمند کی ضرورت ہے تاکہ اُس کے وجدانی کیف میں شریک ہوا جا سکے۔
بات دراصل یہ ہے کہ مجید امجد نے اپنی زندگی میں صرف ایک مجموعہ ٔ کلام ’’شبِ رفتہ‘‘ ترتیب دیا تھا جس میں ۱۹۳۵ء سے ۱۹۵۸ء تک کی تخلیقات شامل تھیں۔ اُن کے دوسرے مجموعہ ٔ کلام ’’شبِ رفتہ کے بعد‘‘ میں( جو اُن کی وفات کے بعد ترتیب دیا گیا)‘ ۱۹۳۲ء سے ۱۹۵۷ء تک کی تخلیقات شامل تھیں (مرتب نے کلیات میں اِس حصے کا نام تبدیل کرکے ’’روزِ رفتہ‘‘ کر دیا ہے)۔ میرا اَندازہ ہے کہ شاعر نے اپنی ۱۹۳۲ء سے ۱۹۳۴ء تک کی تخلیقات کو اِس قابل نہ سمجھا کہ اُنھیں ُوہ ’’شبِ رفتہ‘‘ میں شامل کرتے کیوں کہ ’’شبِ رفتہ‘‘ اَور ’’روزِ رفتہ‘‘ ( جس کا پہلا نام ’’شبِ رفتہ کے بعد‘‘ تھا) کی نظموں کی تخلیق کا زمانہ ایک ہی ہے اَور شاید مجید امجد نے اُن تمام تخلیقات کو اَپنے کلام سے حذف کر دیا تھا جو ’’روزِ رفتہ‘‘ میں شامل ہوئیں۔ تاہم بالکل اُسی طرح‘ جیسے غالب کی وفات کے بعد مرتبین نے اُن کا حذف شدہ کلام بھی شائع کر دیا تھا ‘ مجید امجد کے کلام کے مرتب نے بھی ’’شبِ رفتہ‘‘ کے زمانے کے باقی ماندہ کلام کو اُن کی کلیات میں شامل کرنا مستحسن خیال کیا ۔ اِس کے بعد کے کلام کو (جس میں ۱۹۵۸ء کی چند تخلیقات بھی شامل ہیں اَور ظاہر ہے‘ یہ تخلیقات مجید امجد نے ’’شب ِ رفتہ‘‘ کی اِشاعت کے بعد کہی ہوں گی) مرتب نے دو (۲) حصوں ’’اِمروز‘‘ اَور ’’فردا‘‘ کے عنوانات سے مجید امجد کی کلیات میں شامل کیا جس میں ۱۹۷۴ء تک کی تخلیقات شامل ہیں۔ مجید امجد اگر اِسے خود مرتب کرتے تو وہ اُن سکتوں کو دُور کرنے کا اہتمام ضرور کرتے جن کے باوصف معترضین کو اُن کے کلام کا بیشتر حصہ ’’نثری نظم‘‘ محسوس ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ مجید امجد نے اپنی نظموں میں طویل سے طویل تر مصرعے اِستعمال کیے ہیں جن کی قرأت مجید امجد اَیسا کوئی باشعور شاعر ہی کر سکتا ہے۔ میرا خیال یہ ہے‘مرتب کو اَیسے طویل مصرعوں کی تراش خراش کرکے‘ جن میں سکتہ محسوس ہوتا ہے‘ دو دو یا تین تین مصرعوں میں ُیوں تبدیل کر دینا چاہیے تھا کہ تراشیدہ مصرعے ایک ہی بڑے مصرعے کا حصہ دکھائی دیتے۔
بہر کیف میرا موقف یہ ہے کہ مجید امجد کے مصرعوں میں حقیقتاً کوئی سکتہ نہیں‘ صرف اُنھوں نے بعض جگہوں پر بحر کو توڑا ہے اَور اَپنے تئیں یہی سمجھا ہے کہ آنے والا قاری اُن کی طرح ایسی جگہوں پر رُک کر آگے بڑھے گا۔ مگر اُنھیں کیا پتا تھا کہ اُن کے بعد نظم کی قرأت کرنے والے قاری تو کیا شعرا کرام بھی عروض کی باریکیوں سے بے بہرہ ہوں گے اَور اُن کی نظموں کو ’’نثری نظم‘‘ کے  زمرے میں شمار کریں گے!

……………………………………
سہ ماہی "کارواں” بہاول پور
جلد: ۴۲
جنوری ۲۰۱۴ء تا دسمبر ۲۰۱۴

Related posts

Leave a Comment