گاؤں والا میں یاری دوستی کا ذوق رکھوں پسندیدہ ہے میری آشنائی میں بیلے پر کبڈی کھیل کھیلوں جو لہروں نے مجھے تیزی سکھائی میں نغمہ بار کھیتوں میں پھرا ہوں بھری فصلوں نے بخشی ہے رسائی اطاعت گاؤں کے بچّوں سے سیکھی بزرگوں نے سکھائی ہے بڑائی میں لکھوں خوش خطی کاغذ پہ ایسے مرے دل میں ہے روشن روشنائی ملے پنگھٹ سے نینوں کو ستارے بھلی ہے آنچلوں کی رونمائی گھنے تھے گاؤں میں والد کے سائے بڑی میٹھی تھی جنت مامتائی ستارہ وار میں گلیوں میں گھوموں…
Read MoreCategory: آج کی نظم
زعیم رشید ۔۔۔ بلوغت کی ایک نظم
کھل جاسم سم کھل جاسم سم…. کھل جاسم سم کہنے سے بھی غار دہانہ کب کھلتا ہے! میں نے اپنے تشنہ، ترسے گرم لبوں سے نیند کے ماتے تن پر ہلکے ہلکے دستک دی تو کوئی نہیں تھا کنڈلی مار کے بیٹھی دھوپ سے خود کو ڈسوانے کی لذت اب شہوت میں بدل گئی تھی جسم کی وحشت الماری میں اِک ہینگر سے لٹک رہی تھی اس کھڑکی کی انگڑائی میں ایک خزانہ دہک رہا تھا ایک برہنہ مست کنواری خواہش تھی جو اب دو مونہی ناگن بن کرپھن پھیلائے…
Read Moreفرحت پروین ۔۔۔ تمھارے چار سو میں ہوں
’’کبوتر کے پروں پر لکھ کے جو پیغام بھیجا تھا ملا تم کو؟‘‘ ابھی تو رنگ بھرنے تھے بہت سے میں نے لفظوں میں بھلا بیٹھی جو عجلت میں سو تتلی کو روانہ کر دیا ہے اس تعاقب میں مگر پھر ناگہاں دل میں خیال آیا مرا سوزِ دروں شاید عیاں پھر بھی نہ ہو پائے تمہاری سمت اب محوِ سفر ہے ایک بلبل بھی مگر وہ ہوک جو رہ رہ کے اٹھتی ہے مرے دل سے تڑپ اس کی سما پائے گی کیا بلبل کے نغمے میں سو لازم…
Read Moreخورشید رضوی ۔۔۔ سات سمندر پار وطن کی یاد
سات سمندر پار وطن کی یاد ……………………………………………………………………………….. اے میرے وطن اے پیارے وطن جب اسکولوں کے گیٹ کھلیں جب بچوںکا ریلا آئے پتھر کی سڑک پر پھول کِھلیں خوشبوؤں کا دریا آئے جب ایک سی وردی پہنے ہوئے بچوں کو گھر والے بھولیں جب سائیکلوں اور تانگوں پر بستے لٹکیں، تھرمس جھولیں تب سات سمندر طے کر کے اُن کی چاپیں مجھ کو چھو لیں اور دل مین درد کی ہوک اُٹھے اے میرے وطن اے پیارے وطن جب رنگ بھرا ہو شاموں میں جب بور لدا ہو آموں میں…
Read Moreشاہین عباس ۔۔۔ اے تصویر انسان
اے تصویر انسان (۱) کوئی کوئی دن سمے کی دھار پہ ایسا بھی آ جاتا ہے اچھی بھلی نبضوں پر چلتی گھڑ یاں کام نہیں کرتیں کبھی کبھی کا جھونکا سا دن کئی کئی دن چلتا ہے سِن اندرسِن سال اندرسال قرنوں اندر قرن الٹتا قرن پلٹتا بارہ گھنٹوں کے چکر میں ، چلتا اور چکراتا گولا جسم ہیولوں سا اک چولا دانہ چگتا دن ، جب گنبد گنبد چکر کاٹتا ہے ، تو جیسے دنیا کے نقشے پر گندم کی سب بالیاں گھیرے میں لے لیتا ہے دن جیسے…
Read Moreسعید دوشی ۔۔۔ کوکھ جلا سیارہ
کوکھ جلا سیارہ یہ سیارہ جو بالکل بیضوی کشکول جیسا ہے گلوبی گردشیں ساری ہمیشہ سے اسی کے گرد گھومی ہیں جو مقناطیس، مقناطیسیت سے ہاتھ دھو بیٹھیں تو پھر کمپاس کیا سمتیں بتائیں یہاں دل ہی نہیں گھٹتا بدن کا وزن بھی تفریق در تفریق ہوتا مثبتوں سے منفیوں کے دائروں میں گھومتا محسوس ہوتا ہے مسلسل گردشوں پر گر کوئی نظریں جمائے گا تو پھر چکر تو آئیں گے یہاں املی نہیں ملتی فقط ناپید جیون ہی کے کچھ آثار ملتے ہیں گہر ہونے کی خواہش میں برسنے…
Read Moreعزیز فیصل ۔۔۔ دل کو دل سے رہ ہوتی ہے (ماہنامہ بیاض لاہور مارچ 2022 )
دل کو دل سے رہ ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اک دن اس نے فون پہ پوچھا: ’’کیسے ہو؟‘‘ میں ششدر حیران ہوا تھا زندہ کیا امکان ہوا تھا؟ وہ پھر بولی: ’’میں نے پوچھا کیسے ہو کیا ویسے کے ویسے ہو؟‘‘ لفظ کہاں تھے جو دل کے ارمانوں کی تصویر بناتے اور بتاتے تنہائی کے اک گھنٹے میں کتنے سال سما جاتے ہیں روح میں کیسے درد پرانے در آتے ہیں وہ پھر بولی: ’’ کیسے ہو بولو، فیصل !اور بتاؤ دس برسوں کا لمبا عرصہ کیسے گزرا ، کیونکر کاٹا‘‘…
Read Moreمجید امجد ۔۔۔ التماس
التماس مری آنکھ میں رتجگوں کی تھکاوٹ مری منتظر راہ پیما نگاہیں مرے شہرِ دل کی طرف جانے والی گھٹاؤں کے سایوں سے آباد راہیں مری صبح تیرہ کی پلکوں پہ آنسو مری شامِ ویراں کے ہونٹوں پہ آہیں مری آرزوؤں کی معبود! تجھ سے فقط اتنا چاہیں، فقط اتنا چاہیں کہ لٹکا کے اک بار گردن میں میری چنبیلی کی شاخوں سی لچکیلی بانہیں ذرا زلفِ خوش تاب سے کھیلنے دے جوانی کے اک خواب سے کھیلنے دے
Read Moreڈاکٹر مظفر حنفی ۔۔۔ صور اسرافیل
اب تو بستر کو جلدی سے تہہ کر چکو لقمہ ہاتھوں میں ہے تو اسے پھینک دو اپنے بچوں کی جانب سے منھ پھیر لو اس گھڑی بیویوں کی نہ پروا کرو راہ میں دوستوں کی نظر سے بچو اس سے پہلے کہ تعمیل میں دیر ہو سائرن بج رہا ہے ۔ چلو دوستو!
Read Moreڈاکٹر مظفر حنفی ۔۔۔ دوسری جلاوطنی
جب گیہوں کا دانا جنس کا سمبل تھا، اس کو چکھنے کی خاطر، میں جنت کو ٹھکرا آیا تھا۔ اب گیہوں کا دانہ، بھوک کا سمبل ہے ۔ جس کو پانے کی خاطر، میں اپنی جنت سے باہر ہوں !
Read More