بَن میں ویراں تھی نظر، شہر میں دل روتا ہے زندگی سے یہ مِرا دوسرا سمجھوتہ ہے لہلہاتے ہوئے خوابوں سے مری آنکھوں تک رت جگے کاشت نہ کرلے تو وہ کب سوتا ہے جس کو اس فصل میں ہونا ہے برابر کا شریک میرے احساس میں تنہائیاں کیوں بوتا ہے نام لکھ لکھ کے تِرا، پھول بنانے والا آج پھر شبنمیں آنکھوں سے ورق دھوتا ہے تیرے بخشے ہوئے اک غم کا کرشمہ ہے کہ اب جو بھی غم ہو مرے معیار سے کم ہوتا ہے سوگئے شہرِ محبت…
Read MoreTag: Muhammad
اِسی دن ۔۔۔ غلام محمد قاصر
اِسی دن ۔۔۔۔۔ اِسی دن آسمانی خواب کی ہم نے ہری تعبیر پہنی تھی ہمارے ہاتھ میں نصرت کا پرچم اور امکانات کے پھولوں کی ٹہنی تھی ہم اس کی خواب گوں جھنکار سے آگے نکل آئے کئی نسلوں نے جو زنجیر پہنی تھی سنہرے لفظ دیواروں پہ کندہ ہوتے جاتے تھے اجالوں کی طرف چُپکے سے وہ ہم کو بلاتے تھے سبھی تسلیم کرتے ہیں وہی بنتا ہے سچائی کو جب تجسیم کرتے ہیں ہم اپنے رہنما کی اس طرح تعظیم کرتے ہیں کہ اس کے خواب کو تقسیم…
Read Moreمیرزا محمد رفیع سودا
مجھ صیدِ ناتواں کے احوال کو نہ پوچھو محروم ذبح سے ہوں، مردود ہوں قفس کا
Read Moreمیرزا محمد رفیع سودا
طلب نہ چرخ سے کر نانِ راحت، اے سودا پھرے ہے آپ یہ کاسہ لیے گدائی کا
Read Moreمحمد مختار علی ۔۔۔۔۔۔۔ آسماں یا زمیں طواف کرے
آسماں یا زمیں طواف کرے جو جہاں ہے وہیں طواف کرے کعبہء عشق بے نیاز سہی دِل تو اپنے تئیں طواف کرے رنگ اُس کا طواف کرتے ہیں جب کوئی مہ جبیں طواف کرے طائرِ خوش نوا ہو نغمہ سرا اور حرم کا مکیں طواف کرے اُس گماں سے ہمیں ہے نسبتِ عشق جس گماں کا یقیں، طواف کرے ریت چھلکائے زمزمے مختارؔ جب وہ صحرا نشیں طواف کرے
Read Moreمحمد مختار علی
دَرد کے معجزے ہوتے ہیں لُغت سے آزاد میرؔ نے حسنِ معانی کی نمائش نہیں کی
Read Moreمحمد علوی
پڑا تھا مَیں اک پیڑ کی چھائوں میں لگی آنکھ تو آسمانوں میں تھا
Read Moreمحمد علوی ۔۔۔۔۔۔۔ آفس میں بھی گھر کو کھلا پاتا ہوں میں
آفس میں بھی گھر کو کھلا پاتا ہوں میں ٹیبل پر سر رکھ کر سو جاتا ہوں میں گلی گلی میں اپنے آپ کو ڈھونڈتا ہوں اک اک کھڑکی میں اس کو پاتا ہوں میں اپنے سب کپڑے اس کو دے آتا ہوں اس کا ننگا جسم اٹھا لاتا ہوں میں بس کے نیچے کوئی نہیں آتا پھر بھی بس میں بیٹھ کے بے حد گھبراتا ہوں میں مرنا ہے تو ساتھ ساتھ ہی چلتے ہیں ٹھہر ذرا، گھر جا کے ابھی آتا ہوں میں گاڑی آتی ہے لیکن آتی…
Read Moreانتظار ۔۔۔۔۔ محمد علوی
انتظار ۔۔۔۔ اُسی رہگذر پر جہاں سے گزر کر نہ واپس ہوئے تم بچارا صنوبر جھکائے ہوئے سر اکیلا کھڑا ہے!
Read Moreمحمد مختار علی ۔۔۔۔۔۔ دشت میں اشک فشانی کی نمائش نہیں کی
دشت میں اشک فشانی کی نمائش نہیں کی ریت پر بیٹھ کے پانی کی نمائش نہیں کی وقت ہر چیز کو مٹی میں ملا دیتا ہے اِس لیے ہم نے جوانی کی نمائش نہیں کی چاند کو گھر سے نکلنے میں جو تاخیر ہوئی رات نے رات کی رانی کی نمائش نہیں کی دَرد کے معجزے ہوتے ہیں لُغت سے آزاد میرؔ نے حسنِ معانی کی نمائش نہیں کی اِک غزل لکھ کے بہا دی ہے ندی میں مختارؔ پر طبیعت کی رَوانی کی نمائش نہیں کی
Read More