فالتو سامان ۔۔۔۔۔۔ نجیب احمد

فالتو سامان
…………..
مرا کمرہ مرا گھر ہے
مرے گھر پر مرے بچوں نے قبضہ کر لیا ہے
کتابوں سے بھرے کمرے میں اک کرسی تھی اور اک میز تھا اور
                      میز پر کاغذ قلم کے ساتھ ہی تصویر رکھی تھی
تری تصویر رکھی تھی
نگارِ جاں!
تری تصویر رکھی تھی
تلاشِ رزق میں گھر سے نکلتا، شام کمرے میں قدم رکھتا
کتابوں کی طرف بڑھتا تو دن بھر کی تھکن کافور ہو جاتی
رگ و پے میں توانائی سی در آتی
عجب بے روح سا، بے فیض سا دن تھا
مرے ہاتھوں سے مزدوری کے سکے گر چکے تھے
تری تصویر آنکھوں میں لیے کمرے تک آتے ہی ٹھٹھک کر رہ گیا تھا
مرا کمرہ
بہت ہی صاف ستھرا اور کشادہ لگ رہا تھا
’’کتابوں نے جگہ کو گھیر رکھا تھا سو میں نے بیچ دی ہیں‘‘
                  مرا بیٹا نہیں فرعون مجھ سے کہہ رہا تھا
’’مگر میری کتابیں‘‘
’’کہا ناں بیچ دی ہیں‘‘
ہتھوڑے کی طرح آواز سر پر آ لگی تھی
’’مگر کیوں بیچ دی ہیں اور یہ بستر۔۔۔۔‘‘
’’یہ بستر آپ کا بستر نہیں ہے
یہ اک مہمان کا بستر ہے اور مہمان کچھ دن
           آپ کے کمرے میں ٹھہرے گا‘‘
میں چھت کی سمت جاتی سیڑھیاں چڑھنے لگا تھا
مجھے معلوم تھا، اوپر بھی اک چھوٹا سا کمرہ ہے
                  جہاں ہم فالتو سامان رکھتے ہیں

حقیقت ہے کہ وہ مہمان کب کا جا چکا ہے
مگر میں آج بھی کچھ فالتو سامان کی صورت
                        اُسی چھوٹے سے کمرے میں پڑا ہوں!

Related posts

Leave a Comment