ڈاکٹرغفور شاہ قاسم ۔۔۔ مجید امجد:سفاک تنہائیوں کا شاعر

مجید امجد ۔۔ سفاک تنہائیوں کا شاعر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایذرا پاؤنڈ کا کہنا ہے: ’’شاعری وہ تنہا شخص کرتا ہے جس کی خاموشی اور تنہائی ناقابلِ برداشت ہو جایا کرتی ہے۔‘‘ پاؤنڈ کی یہ بات بڑی جامعیت اور موزونیت کے ساتھ مجید امجد کی شخصیت اور شاعری کا احاطہ کرتی ہے۔
مجید امجد کے شب و روز کا مطالعہ کیا جائے اور واقعاتِ حیات کو مدِ نظر رکھا جائے تو یہ تلخ حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے کہ پیدائش سے لے کر وفات تک وہ الم ناک حادثات سے دوچار ہوتے رہے۔ابھی کم سن ہی تھے کہ باپ نے دوسری شادی کر لی۔ ماں انھیں لے کر اپنے والدین کے پاس چلی گئی۔سو انھوں نے اپنے نانا کے گھر پرورش پائی۔گویا باپ کی شفقت اور نگرانی سے بچپن میں ہی محروم ہو گئے۔انھیں حقیقی بہن بھائیوں کی نعمت بھی میسر نہ آ سکی۔بہ ذاتِ خود ناکام عائلی زندگی گزاری۔ اور اس پر مستزاد یہ کہ اولاد جیسی نعمت سے بھی محروم رہے۔ہمارے نقطۂ نظر سے مندرجہ بالا واقعاتی اور نفسیاتی پس منظر میں مجید امجد کی شاعری کا مطالعہ کیا جانا چاہیے تا کہ اُن کی تخلیقی اکائی تک رسائی پانے میں کامیابی حاصل کی جا سکے۔ ہمارے نزدیک ’’سفاک تنہائی‘‘ وہ کلیدی اور مرکزی نکتہ ہے جس کی روشنی میں مجید امجد کی شاعری اور فن کی تفہیم ممکن ہو سکے گی۔بجا طور پرشہزاد احمد نے اُنھیں تنہائی کا مسافر اور ہلال زبیری نے شہیدِ تنہائی قرار دیا ہے۔ شہزاد احمد لکھتے ہیں:
’’ پرانے زمانے میں رواج تھا کہ جب کوئی انسان فقر کی طرف راغب ہوتا تھا تو زندگی کی بہت سی آسائشیں اپنے اوپر حرام کر لیتا۔ یہی کام مجید امجد نے مسلسل کیا ہے۔ پہلے تو اُس نے اپنے اوپر دنیاوی ترقی کے مدارج کو حرام کیا، پھر وہ شہر بھی چھوڑ دیا جو اُس کی جنم بھومی تھا۔ باقاعدہ گھریلو زندگی بھی ترک کر دی۔ (شاید وہ یہ بھی جانتا تھا کہ تنہائی کو آلودہ کرنے کا اس سے بہتر نسخہ موجودہ معاشرے نے ابھی تک ایجاد نہیں کیا)‘‘
وہ مزید لکھتے ہیں:
’’تنہائی ایک ایسا نفسیاتی عمل ہے جو انسان کو پیس کر رکھ دیتا ہے۔ پھر اسی ریزہ ریزہ مٹی کے ڈھیر سے انسان دوبارہ جنم لیتا ہے اور اُس کا دوسرا جنم پہلے سے کہیں زیادہ اعلیٰ و ارفع ہوتا ہے۔ اس عمل کو نفسیات والے کیمیا کا عمل کہتے ہیں کیوں کہ اس کے باعث انسان کا تودہ رہنے کی بجائے ایک ایسا وجود بن جاتا ہے جس کی ہڈیاں سونے کی اور آنکھیں نیلم کی ہو جاتی ہیں۔‘‘
(شہزاد احمد: مضمون: تنہائی کا مسافر، شمولہ مجید امجد۔۔ ایک مطالعہ، مرتب: حکمت ادیب، ص 287)

مہکتی دہکتی تخلیقی تنہائی کا یہ تجربہ انتہائی اذیت ناک ہے۔ یہ تجربہ شخصیت کے تمام بند اور دیواریں مسمار کر دیتا ہے۔ مجید امجد کی تنہائی تخلیقی واردات ہے۔جو بہ ظاہر تنہائی دِکھتی ہے مگر دراصل یہ حضوری، حاضری اور باریابی کی کوئی منزل ہے۔انتہائی کم آمیز، درویش منش تنہائی پسند انسان مجید امجد کا اعترافی بیان ہے:

دل نے ایک ایک دکھ سہا تنہا
انجمن انجمن رہا تنہا
ڈھلتے سایوں میں تیرے کوچے سے
کوئی گزرا ہے بارہا تنہا

معروف نقاد ڈاکٹر سلیم اختر مجید امجد کے احساسِ تنہائی کے ایک اہم پہلو کی نشان دہی اپنی ایک تحریر میں اس طرح کرتے ہیں:
’’تنہا مرد کی جنسی آسودگی کے نقطۂ نظر سے میں نے مجید امجد کا مطالعہ کیا تو یہ احساس ہوا کہ گو اس کے یہاں جنس پر واشگاف انداز میں لکھنے کا رجحان تو نہیں لیکن اس کے باوجود اُس نے جنس کے بارے میں جو کچھ لکھا، تنہا مرد کے ردِ عمل کے لحاظ سے وہ بے حد دل چسپ ہے۔ مجید امجد امجد پر لکھتے وقت ناقدین کی اکثریت نے اس کی شاعری میں تنہائی کے شدید احساس کی طرف توجہ تو کی لیکن اس سے جنم لینے والی اس فرسٹریشن کے تجزیہ کی کوشش نہ کی جس میں جنسی محرومی اہم ترین کردار ادا کرتی نظر آتی ہے۔ آٹو گراف مجید امجد ہی کی نہیں بل کہ اردو کی چند اہم ترین نظموں میں شمار کی جا سکتی ہے۔ اس میں تنہائی کے بارے میں جس مرد کی تصویر ابھرتی ہے وہ جنسی احساسِ کم تری کا شکار ہے۔‘‘
’’آٹو گراف‘‘ کے علاوہ مجید امجد کی نظم ’’برہنہ‘‘ کا مطالعہ بھی اسی پس منظر میں کیا جا سکتا ہے۔اس نظم کے حوالے سے ڈاکٹر سلیم احمد کی رائے نہایت وقیع ہے۔اُن کی رائے یہ ہے کہ مجید امجد کا فن جس بلند سطح پر تھا اس کی بنا پر اس نے نظم میں SENSOUSNESS تو پیدا کی لیکن اسے واشگاف بنا کر لذت کی دلدل نہ بنایا، چناں چہ نظم کا مجموعی تاثر وہ ہے جسے سنسکرت تنقید کی اصطلاح میں ’’رس‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
(بحوالہ مضمون پھول نرگس کا، مشمولہ مجید امجد۔۔ ایک مطالعہ، مرتب: حکمت ادیب۔ ص 304)

گذشتہ سطور میں عرض کیا جا چکا ہے کہ تنہائیاں اور محرومیاں مجید امجد کا مقدر رہی ہیں۔ ان کی زندگی اشکوں اور آہوں سے شاداب تھی۔ بہ ظاہر وہ ہماری دنیا کا فرد مگر دراصل وہ ایک الگ تھلگ دنیا کا باسی تھا۔ بقول ڈاکٹر سید عبداللہ:
’’وہ یا تو اپنے زمانے سے پہلے کا آدمی تھا یا اپنے زمانے کے بعد کا، وہ اصلاً دکھ درد کا شاعر ہے۔ وہ انسانی تقدیر کی محرومیوں کا شارح اور مفسر ہے۔ وہ بیابانی کیفیتوں کا شاعر اور سفاک تنہائیوں کا ترجمان شاعر ہے‘‘
(چند نئے پرانے شاعر، ص۔160)

مجید امجد کی عمر کا بیش تر حصہ ساہی وال جیسے خاموش اور پرسکون کنجِ تنہائی میں گزرا۔ وہ بالعموم ذرائع ابلاغ سے گریزاں رہے۔بزم آرائی پر کنجِ تنہائی کو ترجیح دیتے رہے۔ لہٰذا ان کا طرزِ سخن اسی تنہائی کی دین ہے۔وہ اپنی زندگی میں شعر و ادب کی دنیا میں نمایاں مقام حاصل نہ کر سکے کیوں کہ وہ شہرت طلبی کے مرض میں مبتلا نہیں تھے۔ نظم آٹو گراف کی یہ لائنیں اسی کیفیت کی غماز ہیں:

میں اجنبی، میں بے نشاں
میں پابہ گِل!
نہ رفعتِ مقام ہے، نہ شہرتِ دوام ہے
یہ لوحِ دل، یہ لوحِ دل
نہ اِس پہ کوئی نقش ہے، نہ اِس پہ کوئی نام ہے!

تاہم اس امر میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ بیسویں صدی کے اواخر اور اکیسویں صدی کی شروعات میں اہلِ نقد نے اُن کی تخلیقی کائنات کی قدر و قیمت کا تعین کر لیا اور اس حقیقت کو تسلیم کر لیا گیا کہ موضوعاتی اور ہیتوں کے تنوع میں کوئی نظم گو اُن کا ثانی نہیں ہے۔
ایک مرتبہ پھر ہم اپنے بنیادی تھیسس کی طرف لوٹتے ہیں کہ مجید امجد کی تخلیقی کائنات تنہائی کی زائیدہ اور تراشیدہ ہے۔مجید امجد ہمارے دور کے شعری ادب کی پہچان اور اردو نظم کی تاریخ کا درخشاں نام ہیں۔ تنہائی پسندی کی وجہ سے انھیں اپنی زندگی میں تو شہرت نہ مل سکی جس کے وہ بجا طور پر حق دار تھے مگر اُن کی وفات کے بعد ان کی شاعری کی داخلی قوت اور منفرد اسلوب کی بدولت اِس کی قدر و منزلت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔بلال زبیری نے اپنی نگارش ’’ شہیدِ تنہائی‘‘ میں اس امر کا اظہار کیا ہے :
’’وہ تنہائی اور گوشہ نشینی سے اس قدر مانوس ہو چکے تھے کہ اُن کو بھرے شہر اجاڑ نظر آتے تھے۔۔۔وہ انجمنوں اور محفلوں سے خوف زدہ تھے، وہ اپنے زخمی اور اداس دل کا مداوا چاہتے تھے لیکن جب بھی اُن کی فکر نے ادھر کا رخ کیا، احساس کے زخم اور گہرے ہوتے چلے گئے۔۔۔ مجید امجد نے نصف صدی تک احساس کے چراغوں کو اپنے دل اور اپنی روح کے زخموں سے روشن کیے رکھا مگر جب بھی انھوں نے گرد و پیش کا جائزہ لیا، خود کو تنہا پایا۔ وہ کیوں نہ تنہائی سے محبت کرتے؟ وہ کیوں نہ گوشہ نشینی اپناتے؟ اُن کا زندگی بھر کسی نے ساتھ نہ دیا۔ اور اگر کسی نے وفا کی تو وہ صرف اُن کی تنہائی تھی ۔‘‘
(ماخوذ، مجید امجد۔۔۔ اک مطالعہ، مرتب حکمت ادیب، ص۔۔ 291)

شبِ رفتہ کے ابتدائیہ کے طور پر مجید امجد نے ایک نظم کے آٹھ مصرعے لکھے جس کا کوئی عنوان نہیں مگر یوں لگتا ہے کہ مجید امجد انھی مصرعوں کے ذریعے قاری سے خود کو متعارف کرانا چاہتے ہیں۔ وہ جن ذہنی تجربات اور قلبی مشاہدات سے گزرے، اُسے انھوں نے گم صم اندھیرے کا نام دیا ہے:

ہاں اسی گم سے اندھیرے میں ابھی
بیٹھ کر وہ راکھ چننی ہے مجھے
راکھ اُن دنیاؤں کی جو جل بجھیں
راکھ جس میں لاکھ خونی شبنمیں
زیست کی پلکوں سے ٹپ ٹپ ٹوٹتی
جانے کب سے جذب ہوتی آئی ہیں
کتنی روحیں ان زمانوں کا خمیر
اپنے اشکوں سے سموتی آئی ہیں

2014ء تخلیقی سفر کے اس تنہا مسافر کی سال گرہ صدی تقریبات کا سال ہے۔ مذاکرے، سیمی نارز، کا انعقاد اور جرائد کے مجید امجد نمبرز کی اشاعت کا سلسلہ ایک تسلسل سے جاری رہے گا۔ سہ ماہی ’’کارواں‘‘ بہاول پور ہمارے ہدیہ تہنیت اور تبریک کا مستحق ہے جس نے زیرِ مطالعہ شمارہ کی صورت اپنا ادبی قرض چکانے کی سعی مشکور کی ہے۔
اپنی اس تحریر کے اختتامیے کے طور پر ہم یہ گزارش کرنا چاہیں گے کہ شعری متن کی خواندگی متن کے محدود، متعین، یک پرتی مفاہیم تک محدود نہیں ہوتی۔ اس کے پس منظر میں بہت سے غیر مرئی اور نادیدہ محرکات موجود ہوتے ہیں۔ جن کی تفہیم اور توضیح کے تقاضے ہر دور میں بدلتے چلے جاتے ہیں۔ سو اس مضمون میں مجید امجد کے تخلیقی سفر کے ایک اہم زاویے کو نشان زد کیا گیا ہے۔ یقیناً اس کے دیگر پہلو بھی بجا طور پر مطالعے کا موضوع بنائے جا سکتے ہیں۔مجید امجد نے اپنے شعری وژن کو اتنے سلیقے سے سلکِ سخن میں پرو دیا ہے کہ قاری حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ ان کی اقلیمِ سخن میں ایک جہانِ حیرت پردہ کشائی کا منتظر ہے۔

Related posts

Leave a Comment