بہاول پور میں اردو ادب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہاول پور تاریخی ، تہذیبی اور ثقافتی اعتبار سے اپنا ایک تشخص رکھتا ہے۔ سرسوتی کے مقدس دریا کی وجہ سے اس علاقے کا ویدوں میں کئی جگہ ذکر آیا ہے۔ گنویری والا کا مقام تاریخ کا گم گشتہ باب ہے۔جو بہاول پور کے ریگزار میں آج بھی شاندار ماضی کا گواہ ہے۔ پتن منارا، سوئی وہار اور ایسے کئی دوسرے مراکز بہاول پور کے مختلف علاقوں میں اپنی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ مسلمانوں نے سندھ کے راستے ملتان تک فتوحات کیں تو اوچ ایک ایسا مقام بن گیاجہاں اولیائے کرام نے رشد و ہدایت کے سلسلے جاری کیے۔اوچ شریف اہلِ دل کے لیے فیوض و برکات کا منبع بن گیا اور اہلِ علم اوچ کی طرف کھنچے چلے گئے۔یہاں مدرسوں کا جال سا بچھ گیا۔ اور تشنگانِ علم اپنی پیاس بجھانے لگے۔ فارسی کی بعض اہم کتابیں تصنیف و تالیف کی گئیں، دفاعی اعتبار سے جابجا قلعے تعمیر کرائے گئے۔ نامور سیاحوں نے اس علاقے کی بار بار سیاحت کی۔ اور بیرونی حملہ آور صحرائے چولستان کو عبور کر کے جنوبی ایشیا کے دوسرے مراکز کی طرف پیش قدمی کرتے رہے۔
تاریخ کا عمل صدیوں تک جاری رہا۔ بہاول پور کی اہمیت و افادیت وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی گئی۔ اور یہ خطہ بغداد الجدید بن گیا۔ عباسی نوابوں کے آنے سے وادی ہاکڑہ کی گمشدہ تاریخ ایک بار پھر تابناک ہو گئی۔ اور صحرا آباد ہونے لگا۔ بلند و بالا ایوان تعمیر ہونے لگے۔ نئے زمانے میں ذرائع بڑھنے سے فاصلے سمٹتے گئے۔ یہاں اردو شاعری نے کنعان کی صورت میں اسماعیلی بزرگوں کے ہاں پاوئں پائوں چلنا شروع کیا۔ عباسی حکمرانوں کے عہد میں جنوبی ایشیا کے دوسرے مراکز سے بعض اہلِ علم نے بہاول پور کی طرف نقل مکانی کی۔ ان کے یہاں آنے سے اردو زبان کو فروغ ملا اور نظم و نثر کی آبیاری ہونے لگی۔
انیسویں صدی کے اوائل میں بہاول پور کی طرف سکھوں کی فوجیں بڑھیں تو نوابینِ بہاول پور کو انگریزوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا پڑا۔ اس سے یہاں انگریزی عمل دخل شروع ہو گیا۔ بعد میں انگریزی عہدِ اقتدار میں اُردو زبان و ادب کو فروغ ملا۔ دفتری زبان فارسی کی جگہ اُردو ہوئی۔
سرکاری اخبار "صادق الاخبار”اردو زبان میں شائع ہونے لگا۔ اس اخبار میں شعر و ادب کو بھی جگہ ملنے لگی۔ "صادق الاخبار” کے مدیران نے اس کی اشاعت کو بڑھانے اور اردو زبان و ادب کی خدمت کرنے کے لیے اس میں نت نئے اضافے کیے۔ طرح طرح کی دلچسپی کے سامان پیدا کیے۔ جنھوں نے اس اخبار کی حیثیت متعین کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
مولوی محمد اعظم، مخدوم شمس الدین گیلانی اور منشی نصیرالدین نے یہاں اردو شاعری کی ابتدا کی۔ طبی موضوعات کو نظم میں پیش کرنا بہاول پور میں دلچسپ تجربہ تھا۔ اسے حکیم خواجہ امین الدین نے اپنے طور پر اظہار کا وسیلہ بنایا۔ اسی طرح مولوی عزیزالدین ساعت ساز نے شہرہ آفاق قصیدہ بردہ کا اردو اور سرائیکی میں ترجمہ کر کے "نظم الورع”کے نام سے پیش کیا۔ اس دور میں نعتیہ اور مناجاتی شاعری کو عروج حاصل تھا۔ شاعروں نے مذہبی شاعری کی روایت کو آگے بڑھایا۔
اردو شاعری کو بہاول پورمیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انیسویں صدی عیسوی کے اواخر میں قاضی محمد عارف نے منظوم سفرنامہ تخلیق کیا۔ جس میں زبان و بیان کی لطافت کے ساتھ ساتھ دوسرے فنی لوازمات بھی پائے جاتے ہیں۔ اس زمانے میں سرائیکی زبان کے معروف شاعر خواجہ غلام فرید نے شاعری کی۔ انھوں نے اردو میں بھی شاعری کی مگر ان کی اردو شاعری ان کی سرائیکی شاعری کے ہم پلہ نہیں۔ اس لیے وہ اردو شاعری میں اس مقام پر نظر نہیں آتے جس طرح وہ سرائیکی شاعری میں یکتا ہیں۔
انیسویں صدی میں دہلی، میرٹھ، سہارن پور اور اس طرح کے دوسرے علاقوں سے شاعر، ادیب، دستکاراور ہنرمند بہاول پور کی طرف متوجہ ہوئے۔ یہاں نوابینِ بہاول پور نے ان کی قدر دانی کی۔ اور ان کی صلاحیتوں کو ریاستی امور میں استعمال کیا۔ ان مختلف علاقوں سے آنے والے اہلِ علم کی وجہ سے بہاول پور میں ایک معیاری اردو زبان نے تشکیل پائی۔ اور شعر و ادب کو فروغ حاصل ہوا۔ ان عالموں میں عبدالقدوس قدسی، مولوی وحید الدین سلیم پانی پتی اور شیخ غلام نبی جیسے شاعر اور ادیب شامل تھے۔
قصائد کے لیے پرشکوہ زبان کی ضرورت ہوتی ہے۔نفیس اور اعلی خیالات کو قصائد میں پیش کیا جاتا ہے۔ بہاول پور کے بیش تر شاعروں نے قصائد لکھے مگر ان کے قصائد ان اعلی معیارات پر پورے نہیں اترتے جن کا شعری ادب کے مروجہ اصول تقاضا کرتے ہیں۔ البتہ انیسویں صدی میں قصائد کی صنف کو زندہ رکھنے میں بہاول پور کے شعراء نے اپنا کردار ضرور ادا کیا ہے۔قصائد کے علاوہ قطعہ، رباعی، نظم، غزل اور سہرے بھی لکھے گئے۔ جن میں شاعروں نے اپنے اپنے انداز سے طبع آزمائی کی۔
محسن خان پوری اور میر ناصر علی نے بہاول پور میں ریختی کی صنف کو زندہ رکھا۔ ان کی ریختی میں سوقیت، سطحیت اور عامیانہ زبان نہیں بلکہ خواتین کی شائستہ اور مہذب زبان میں ریختی کہی گئی ہے جو انھیں اردو ادب کے ریختی گو شعراء میں ایک بلند مقام عطا کرتی ہے۔
منشی محمد انور فیروز نے انگریزی زبان کے معروف شاعر ورڈزورتھ کی ایک نظم کا ترجمہ کیا۔ جب کہ مولوی عزیزالرحمٰن اور مولوی حفیظ الرحمٰن نے جدید افکار کے ساتھ ساتھ روایتی طرزِ احساس کو بھی اپنی شاعری میں زندہ رکھا۔ مرزا محمد اشرف گورگانی نے دہلی کی معیاری زبان سے یہاں اردو شاعری کے حسن میں اضافہ کیا۔اس طرح اردو شاعری کے قدیم نقش و نگار مختلف موضوعات کے رنگوں سے سجے ہیں۔روایتی موضوعات کے علاوہ زندگی کے نشیب و فراز، نفسیاتی تجزیے، باہر کی دنیا میں رونما ہونے والے واقعات نئی علامتوں اور استعاروں کے ساتھ پیش کیے گئے۔غزل کی لطیف اور گداز زبان میں تجربے کیے گئے اور زبان کی گرفت میں آنے والے لہجے شعروں میں ڈھال دیے گئے۔ غزل گو شاعروں نے زندگی کی سچائیوں کو لفظوں کا حسن عطا کر کے شاعری کو عام زندگی کے قریب کر دیا۔ جدید شاعری کے اس دور میں احمد ندیم قاسمی، شہاب دہلوی، ظہور نظر، نقوی احمد پوری، سید آلِ احمد آفتاب و مہتاب بن کر چمکے۔ انھوں نے اپنی شاعری سے اس زمانے کو متاثر کیا۔ ان شعرا کے ہاں وقت کے بدلتے ہوئے تقاضے، نئے لب و لہجے اور نئے تلازمات ملتے ہیں۔ ان شاعروں نے غزل میں نئے امیجز تخلیق کیے اور معروضی حالات کو گویائی عطا کی۔
نظم گوئی قدرے مشکل صنف ہے۔ اس میں کسی ایک موضوع پر مسلسل اشعار لکھے جاتے ہیں۔ بہاول پور میں بیسویں صدی کے وسط میں جو نظمیں لکھی گئیں ان میں امنگ اور ماضی سے تعلق کا اظہار ملتا ہے۔ مختلف تحریکوں اور سیاسی تبدیلیوں کو شاعروں نے نظموں میں پیش کیا۔ خلیق ملتانی کی مزاحیہ شاعری میں کیفیت، تاثر اور منظر نگاری ملتی ہے۔ جب کہ سنجیدہ موضوعات پر کہی ہوئی ان کی نظموں میں جذباتی شدت کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔آزاد نظموں میں تخیل کے نئے پن نے نئے اسلوب سے روشناس کیا۔عہدِ حاضر میں لکھی جانے والی آزاد نظموں میں وقت کے دھارے میں بہنے والے خواب اور نئی بشارتیں ملتی ہیں۔
آزاد نظم کہنے والوں میں علی احمد رفعت، ظہور نظر اور سید آلِ احمد منفرد اسلوب کے شاعر ہیں جنھوں نے نئے موضوعات کو جگہ دی اور شاعری کو پرکشش بنایا۔
مرثیہ نگاری میں آغا سکندر مہدی اہم مرثیہ گو کے طور پر ابھرے۔ انھوں نے مرثیہ نگاری کے بنیادی تقاضوں کو ملحوظ رکھا۔ ان کے بعض مرثیوں کی تشبیب انھیں میر انیس کا ہم پلہ بنا دیتی ہے۔ انھوں نے سراپا نگاری، رزم نگاری، بین اور دعائیہ حصوں کو خوبی سے بیان کیا ہے۔ گلزار احمد نادم صابری نے مرثیے میں بہت شہرت پائی۔ انھوں نے اس صنف میں نیا تجربہ کیا۔ وہ مرثیے کے اعلٰی فنی محاسن تک تو نہ پہنچ سکے۔ البتہ انھوں نے مرثیے کو ایک نیا طرزِ احساس ضرور دیا۔
موجودہ زمانے میں قطعہ، رباعی، سلام، منقبت اور پابند نظم بھی کہی گئی۔ جس میں شعراء نے اپنے طور پر کوئی بڑا تجربہ پیش نہیں کیا البتہ انھوں نے اپنی شاعری سے اس زمانے کی ترجمانی کی اور اردو شاعری کی روایت کو آگے بڑھایا۔ اس دور کے نئے شاعروں میں سہیل اختر، عابد صدیق، قاسم جلال، منور جمیل، ذیشان اطہر، طاہر محمود اور نوشی گیلانی نے نئے لب و لہجہ میں شاعری کی۔ ان میں بعض شاعروں کو ملکی سطح پر پزیرائی ملی ہے۔
اس دور میں مشاعروں کو رواج ملا۔ ریڈیو، ٹیلی ویژن پر بہاول پور کے شاعروں کو نمائندگی ملی اور تقریبات میں بہاول پور کے شاعروں کی صلاحیتوں کو تسلیم کیا گیا۔
بہاول پور میں اردو نثر کا آغاز اٹھارویں صدی عیسوی میں ملتا ہے۔جب مولوی محمد اعظم اور دولت رائے فارسی کے ساتھ اردو کی طرف متوجہ ہوئے۔انیسویں صدی میں سید مراد شاہ، محمد اشرف گورگانی اور مولوی محمد دین تاریخ نگاری میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان نثر نگاروں کی تحریریں دقیق اور مشکل ہیں۔ جب کہ بیسویں صدی عیسوی میں تخلیق ہونے والی نثر موضوعات اور اصناف کے اعتبار سے اپنے عہد کو متاثر کرتی ہے۔اس دور میں تاریخ، تذکرے، تراجم، مضامین، ناول، افسانے، اور دیگر اصناف تخلیق کی گئیں۔ خاص طور پر عزیز الرحمن عزیز اور حفیظ الرحمن نے بہت سی کتابیں شائع کیں۔ ڈاکٹر شجاع احمد ناموس، عبدالحمید ارشد، اور عبدالحق شوق کی نثر میں عہدِ جدید کے فنی لوازمات کا اہتمام ملتا ہے۔ حیات میرٹھی اور نذیر علی شاہ صحافتی نثر کے ساتھ علمی نثر لکھنے کا ڈول ڈالتے ہیں۔ خاص طور پر حیات میرٹھی کا تذکرہ ” بہاول پور کا شعری ادب” اس سلسلے کی مثال ہے۔ جس میں انھوں نے سادہ انداز سے بہاول پور کے شاعروں کے حالاتِ زندگی لکھے اور ان کی شاعری کا انتخاب مرتب کیا۔
محمد خالد اختر، جمیلہ ہاشمی اور بشریٰ رحمن ناول نگار، افسانہ نگار اور کالم نویس کی حیثیت سے اردو نثر میں معتبر نام ہیں۔ بشری رحمن کے کئی ناول اور افسانوی مجموعے اس وقت اُردو نثر کا بیش بہا سرمایہ ہیں۔ اور اردو نثر میں بہاول پور کا طرہ امتیاز ہیں۔انھوں نے ناول، افسانے، مزاحیہ تحریریں اور مختلف موضوعات پر ہلکے پھلکے مضامین لکھے۔ ان نثر نگاروں کا اسلوب انتہائی جاندار اور اثر انگیز ہے۔ ان کی تصانیف کو ملک بھر کے علمی و ادبی حلقوں میں پزیرائی ملی ۔ نئے لکھنے والوں میں سید جاوید اختر بحیثیت افسانہ نگار اور جمیل اختر نے اس عہد میں افسانوں کے علاوہ افسانچے بھی تخلیق کیےجو اپنا ایک تاثر اور کیفیت رکھتے ہیں۔ احمد غزالی نے بہاول پور کے ثقافتی اور تمدنی حالات کو اپنی تحریروں میں پیش کیا۔ اس طرح ڈاکٹر محمد سلیم ملک نے سادہ اور آسان اسلوب میں انشائیے لکھے۔ جو شہری زندگی کے کئی گوشے منکشف کرتے ہیں اور اپنے انشائیوں میں روزمرہ زندگی کی عام مصروفیات کے ساتھ انسانی کمزوریوں اور کج رویوں کو شگفتگی سے پیش کرتے ہیں۔ علمی اور تحقیقی میدان میں شفیق احمد نے آسان زبان میں نثرلکھی۔ اس دور میں افسانوی، علمی اور تحقیقی نثر آگے بڑھ رہی ہے۔ اردو نثر کے موضوعات میں وسعت پیدا ہو رہی ہے۔ اور بیشتر اصناف کو بہاول پور کے تخلیق کار وسیلہ اظہار بنا رہے ہیں۔
زبان و ادب کی توسیع میں صحافت کا ہمیشہ اہم کردار رہا ہے۔ بہاول پور میں اردو صحافت کا آغاز انیسویں صدی میں "صادق الاخبار” کی اشاعت سے ہوا۔ جو بنیادی طور پر سرکاری اخبار تھا۔ اس اخبار کے اجرا میں کیپٹن منچن کی کوششوں کو دخل حاصل تھا۔ جو بہاول پور میں کونسل آف ریجنسی کے عہد میں سپریٹنڈنٹ کے عہدے پر فائز تھے۔ اس اخبار کے مدیروں نے اس کے صفحات شعر و ادب کے لیے بھی مختص کیے۔ خاص طور پر عبدالقدوس قدسی کی ادارت میں اخبار نے ادب کی آبیاری میں اہم کردار ادا کیا۔ "صادق الاخبار” نے اپنی نوے سالہ تاریخ میں بہاول پور میں صحافت کو فروغ دیا اور قاری سے اپنا رشتہ برقرار رکھا۔
صادق ایجرٹن کالج بہاول پور کا ادبی مجلہ "نخلستانِ ادب” ۱۹۲۳ء کو سہ ماہی کے طور پر شائع ہونا شروع ہوا۔ جس میں کالج کے اساتذہ اور طلبہ کی نگارشات شامل ہوتی تھیں۔ بہاول پور میں شعر و ادب کی ترویج میں اس مجلے نے تاریخ ساز کردار ادا کیا۔ اس مجلےمیں اشرف گورگانی، احمد ندیم قاسمی، شجاع احمد ناموس، محمد خالد اختر اور دوسرے اہم شاعروں اور ادیبوں کی تخلیقات شائع ہوتی رہیں۔
بہاول پور میں پہلا ادبی پرچہ "لالۂ صحرا” صادق آباد کے ایک قصبے سنجر پور سے سید مبارک شاہ نے جاری کیا۔ جس کے مدیر روش صدیقی تھے۔ اس پرچے میں ممتاز اہلِ قلم کی تخلیقات شامل کی گئیں۔ اس کے بعد ماہ نامہ محقق، رودِ ستلج، ماہ نامہ اصلاح، العزیز، سخن ور، اور ماہنامہ کارواں ایسے ادبی مجلے تھے جو بہاول پور کے تخلیق کاروں کو شائع کرتے رہے۔ اور ادب کی آبیاری میں اپنا حصہ ادا کرتے رہے۔
دلشاد کلانچوی نے "جگنو”کے نام سے بچوں کے لیے اور بیگم عبدالحمید ارشد نے "حمیت”کے نام سے عورتوں کے لیے پر چے شائع کیے۔
بہاول پور میں مذکورہ جریدوں کے علاوہ پندرہ روزہ، دس روزہ، ہفت روزہ، دو روزہ اور روزنامے اخبارات بھی کثیر تعداد میں شائع ہوئے۔ جو کبھی چھپتے اور کبھی بند ہوتے رہے۔ ان اخبارات و رسائل کے ساتھ ساتھ کتابی سلسلے بھی جاری ہوئے۔ جن میں رحیم یارخان سے سہ ماہی جدید ادب، ادوار، ادب جہاں، عکاس۔۔۔ بہاول پور سے خاتون، دھڑکن، آگہی، شعور، سائبان، حروف، وجدان، اور بہاول نگر سے خوشبو شامل تھے۔ بعض تعلیمی اداروں نے ہر سال طلبا اور اساتذہ کی نگارشات پر مبنی سالنامے شائع کیے۔ جن میں کبھی کبھار دوسرے علاقوں کے ممتاز لکھنے والوں کی نگارشات بھی شامل ہوتی تھیں۔
بہاول پور کے سہ ماہی مجلوں میں الزبیر معیاری پرچہ ہے۔ جس کے کئی یادگار نمبر شائع ہو چکے ہیں۔ اس پرچے میں علمی، تخلیقی، اور ادبی فن پارے شامل کیے جاتے ہیں۔ الزبیر میں ممتاز اہلِ قلم حضرات کی تخلیقات شائع ہوتی ہیں۔
بہاول پور کی صحافت کی تاریخ میں عزیز الرحمن، حفیظ الرحمن، شجاع احمد ناموس، محی الدین شان، شہاب دہلوی، سید آلِ احمد اور علی احمد رفعت کے نام ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ جنھوں نے ادبی جرائد جاری کر کے معیاری ادب کو شائع کیا۔ اور اپنے جرائد کی ملک بھر میں ترسیل کی۔ اس طرح ملک محمد حیات، ولی اللہ اوحد، حیات ترین، گلزار نسیم اور ظہور احمد راجپوت نے صحافتی زندگی کو متحرک رکھا۔ اور اپنے اخبارات کی پالیسی کے مطابق صحافتی تاریخ رقم کی۔
اردو زبان کو ریاست بہاول پور میں سرکاری زبان کی حیثیت حاصل رہی۔ یہاں خط کتابت اردو میں ہوتی تھی۔ صادق الانوار پریس سے اردو کتب کی اشاعت کا اہتمام کیا گیا۔ اشاعتی اداروں نے نجی طور پر زبان و ادب کے پھیلاو میں حصہ لیا۔ خاص طور پر سلسلہ عزیزیہ اور عزیزالمطابع پریس سے کثیر تعداد میں کتابیں شائع کی گئیں۔ ان اداروں کو عزیزالرحمن اور حفیظ الرحمن جیسے اہلِ علم کی سرپرستی حاصل تھی۔ اردو اکیڈمی نے علمی، تحقیقی، اور ادبی موضوعات پر کئی کتابیں شائع کیں۔ چھوٹے چھوٹے کئی اور ادارے بھی سرگرمِ عمل رہے جنھوں نے علم و ادب کی آبیاری کی۔
تعلیمی ادارے بھی ادب کی فضا کو پروان چڑھاتے رہے۔ اور اپنی تابندہ روایات سے علمی ادبی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ بہاول پور میں ایس ای کالج کی تاریخ ایک صدی پر محیط ہے جہاں اردو ادب کے محسنین وقتا فوقتا بحیثیت استاد اور طالب علم آتے رہے۔ ان میں پروفیسر وحید الدین سلیم پانی پتی، اشرف گورگانی، محمد دین، پروفیسر عبدالحمید، شجاع احمد ناموس اور طالب علموں میں احمد ندیم قاسمی، محمد خالد اختر، شفیق الرحمن اور منیر نیازی قابلِ ذکر ہیں۔
ذرائع ابلاغ ادب کی ترویج میں نمایاں کام کرتے ہیں۔ بہاول پور میں آرٹ کونسل، پاکستان نیشنل سنٹر، اور ریڈیو پاکستان اس سلسلے میں پیش پیش ہیں۔ ریڈیو پاکستان بہاول پور نے ادبی پروگرام نشر کر کے بہاول پور میں لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کی اور انھیں لکھنے کی طرف مائل کیا۔ ادبی انجمنوں نے زبان و ادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کیاہے۔ گذشتہ صدی میں بہاول پور میں ادبی انجمنوں کی داغ بیل پڑی۔ اس تاریخی تسلسل میں بزمِ حمیدیہ، لٹریری لیگ، صادق آرٹ سرکل، اردو مجلس، اردو قلم قبیلہ اور چولستان فورم نے مشاعرے، کانفرنسیں، شامیں اور کتابوں کی رونمائی کی تقریبات منعقد کر کے بہاول پور میں ادب کی آبیاری کی۔ مشاعرے کی روایت نے اردو شاعری کو فروغ دیا۔ ان مشاعروں میں علمی سطح کے ممتاز شعراء کو دعوت دی گئی اور ان مشاعروں میں پڑھے گئے کلام کو بعدازاں کتابی صورت میں محفوظ کیا گیا۔ ان ممتاز شاعروں کے ساتھ ساتھ بہاول پور کے علاقائی شاعروں کو بھی ان مشاعروں میں شرکت کرنے کا موقع ملا جس سے یہاں شعر و ادب کو فروغ ملا۔
بہاول پور شعر و ادب میں ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اس علاقے میں اردو زبان کی نشو و نما میں حکومتی سرپرستی کے ساتھ ساتھ نجی عوامل بھی کارفرما رہے۔ جن کی وجہ سے یہاں نظم و نثر کے معتبر تخلیق کار پیدا ہوئے جو اردو ادب کا سرمایہ ہیں اور یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔