آتش فشاں ۔۔۔ ستیہ پال آنند

آتش فشاں ۔۔۔۔۔۔ ذہن کے گہرے اندھیرے زخم کا اندھا دہانہ بھر گیا اور درد قدرے کم ہوا تو میں نے سوچا آنے والے دن یقیناً زخم کے احساس کو بھی مندمل کرنے میں میرا ساتھ دیں گے آنے والے دن بھلا کب جانتے تھے زخم کے اندر نہاں سیال لاوے کا جو بحرِ بے کراں ہے وہ دہانے کو کسی آتش فشاں کی آنکھ کی مانند یوں کھولے گا، ساری وادیاں، پگ ڈنڈیاں، چٹیل ڈھلانیں غرق ہو جائیں گی ۔۔۔ سارا ذہن خود اِک زخم بن جائے گا ۔۔۔…

Read More

ستیہ پال آنند کی نظم نگاری ۔۔۔ ڈاکٹر وزیر آغا

ستیہ پال آنند کی نظم نگاری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ستیہ پال آنند کی اُردو نظموں کا ایک خاص وصف یہ ہے کہ ان میں امیجز اور ان سے جڑے ہوئے معانی سیدھی لکیر اختیار نہیں کرتے۔ وہ قدم بہ قدم قوسیں بناتے اور یوں اپنی ہی جانب مڑتے چلے جاتے ہیں۔ معانی کا یہ سفر ہمہ وقت محسوسات کے زیریں آہنگ سے رس کشید کرتا ہے جس کے نتیجے میں ان کی نظمیں جمالیاتی حظ بہم پہنچانے میں بھی کامیاب ہیں۔ یہ بات اکثر دیکھنے میں آئی ہے کہ نظم کی بنت…

Read More

"دست برگ” اور ”رن آن لائنز” کا چلن ۔۔۔ ڈاکٹر کالی داس گپتا رضا

مکتوب بنام ستیہ پال آنند ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "دست برگ” اور ”رن آن لائنز” کا چلن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ممبئی ۲۲ ِاپریل ۱۹۹۱ء محبی آنند صاحب! تسلیمات آپ نے مجھ ناچیز کو یاد فرمایا۔ بے حد ممنون ہوں۔ میں ماہرِ عروض نہیں ہوں۔ جو کچھ بھی استادِ محترم ابوالفصاحت پنڈت لبھورام جوش ملسیانی کے قدموں میں بیٹھ کر سیکھا، اسی سے مشقِ سخن ہوئی۔ کمال کرتارپوری بھی میرے بزرگوں میں سے تھے۔ آپ نے ان کا ذکرِ خیر کیا، گویا مجھے میری پرانی زندگی کی یاد دلا دی۔ مجھےتین چار بار آپ سے شرفِ…

Read More

شاہد فرید

ترکِ تعلقات کا کب شوق تھا ہمیں حالات ہی کچھ ایسے تھے، مجبور ہو گئے

Read More

کاسہ اُٹھائے پھرتے ہیں خیرات کے لیے ۔۔۔ شاہد فرید

کاسہ اُٹھائے پھرتے ہیں خیرات کے لیے کرنا ہے کچھ تو اب گزر اوقات کے لیے پابند کر دیا ہے محبت کے کھیل نے اب اِذن چاہیے ترا  ہر بات کے لیے کیا خوب جا نتا ہے طبیعت مری عدو مجھ سے کمک وہ مانگے مری مات کے لیے انکار کرتے کرتے اچانک پلٹ گیا آمادہ ہو گیا وہ ملاقات کے لیے صحرا بھی میرے ساتھ دعا میں ہوا شریک اُٹھے ہیں ہاتھ جب مرے برسات کے لیے پھر اس کے بعد وہ نہیں آیا کہیں نظر شاہد ہمارا ساتھ…

Read More

نقش بر آب ۔۔۔ شاہد فرید

نقش بَر آب ۔۔۔۔۔۔ مَیں نے اِک تصویر بنائی جھیل کے نیلے پانی پر لمحوں کے کنکر نے اس میں جھریاں بھر دیں ہجر کی بارش آئی تو وہ ٹھہر نہ پائی اب مَیں جھیل کنارے بیٹھا گزرے وقت کو ڈھونڈ رہا ہوں محو ِ رقص ہے پانی اور مَیں ڈوبے نقش کو ڈھونڈ رہا ہوں اپنے عکس کو ڈھونڈ رہا ہوں

Read More

خواب زار ۔۔۔ ڈاکٹر غافر شہزاد

خواب زار ۔۔۔۔۔۔۔ خواب زار ۔۔۔شاہدفرید کا اولین مجموعہ کلام ہے اور اس مجموعے کی اشاعت کے سلسلے میں ہی مَیں نے اسے قدرے قریب سے دیکھا ہے۔ سیدھا سادا بھلا سا نوجوان جس کی آنکھوں میں اولیں محبتوں کی جلتی بجھتی چنگاریاں روشن ہیں ۔ محبتیں کرنے والے لوگ یونہی دھیمے کیوں ہوتے ہیں ، اِن کی آواز اور لحن میں احساسِ زیاں نہیں ہوتا۔ اِن کی مٹھی سے زندگی ریت کی طرح مسلسل گرتی رہتی ہے مگر وہ مٹھی خالی ہو جانے سے بے خبر ریت میں روشن…

Read More

علامہ محمد اقبال

نغمہ کجا و من کجا سازِ سخن بہانہ ایست سوے قطار می کشم ناقۂ بے زمام را ترجمہ: نغمہ کہاں اور میں کہاں، سازِ سخن تو ایک بہانہ ہے (ورنہ میرا مقصد تو) بے مہار اونٹنی کو قطار کی طرف کھینچنا ہے۔

Read More

ہر چیز ہے محو خودنمائی ۔۔۔ علامہ محمد اقبال

ہر چیز ہے محوِ خودنمائی ہر ذرّہ شہید ِکبریائی بے ذوقِ نمود زندگی، موت تعمیرِ خودی میں ہے خدائی رائی، زورِ خودی سے پربت پربت، ضعفِ خودی سے رائی تارے آوارہ و کم آمیز تقدیر ِوجود ہے جدائی یہ پچھلے پہر کا زرد رُو چاند بے راز و نیازِ آشنائی تیری قندیل ہے ترا دِل تو آپ ہے اپنی روشنائی اک تُو ہے کہ حق ہے اِس جہاں میں باقی ہے نمودِ سیمیائی ہیں عقدہ کشا یہ خارِ صحرا کم کر گلۂ برہنہ پائی

Read More

مذہب ۔۔۔ علامہ محمد اقبال

مذہب ۔۔۔۔۔۔۔ اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی اُن کی جمعیّت کا ہے مُلک و نَسب پر انحصار قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیّت تری دامنِ دیں ہاتھ سے چهوٹا تو جمعیّت کہاں اور جمعیّت ہوئی رخصت تو ملّت بهی گئی

Read More