سید آلِ احمد

صبحِ جاں کی شبنم ہو ، دُھوپ ہو بدن کی تم سچ بتاؤ یہ جملے‘ کس کا ہات لکھتا تھا

Read More

محمد علوی

کتنی اچھی لڑکی ہے! برسوں بھول نہ پائیں گے

Read More

قابل اجمیری

اختیاراتِ محبت کو سمجھتا ہوں میں آپ بے وجہ بھی کر سکتے ہیں برباد مجھے

Read More

عزیز فیصل … وہ نان سینس ہے اتنا مجھے پتہ نہیں تھا

وہ نان سینس ہے اتنا مجھے پتہ نہیں تھا کہ قل پہ اس سے لطیفہ کبھی سنا نہیں تھا جو بند کرنا تھا دریا کو تم نے کوزے میں تو ایک عام سا لوٹا خریدنا نہیں تھا نکال بیٹھا تھا دندان ساز بھولے سے وہ داڑھ جس میں ذرا سا بھی مسئلہ نہیں تھا کھلا یہ بعد میں مجھ پر وہ کھیر تھی دراصل جسے پلاؤ پہ ڈالا تھا، رائتا نہیں تھا جناب شیخ گئے تھے جہاں پہ مٹکے سمیت وہ اک سٹال تھا لسی کا، میکدہ نہیں تھا

Read More

قابل اجمیری

چشمِ میگوں پہ ہیں سیہ پلکیں یا گھٹائیں شراب خانے پر

Read More

نوح ناروی ۔۔۔ ابھی کم سن ہیں معلومات کتنی

ابھی کم سن ہیں معلومات کتنی وہ کتنے اور اُن کی بات کتنی یہ میرے واسطے ہے بات کتنی وہ کہتے ہیں: تری اوقات کتنی سحر تک حال کیا ہو گا ہمارا خدا جانے ابھی ہے رات کتنی یہ سر ہے، یہ کلیجہ ہے، یہ دل ہے وہ لیں گے خیر سے خیرات کتنی توجہ سے کبھی سن لو مری بات جو تم چاہو تو یہ ہے بات کتنی طبیعت کیوں نہ اپنی مضمحل ہو رہی یہ موردِ آفات کتنی گلستاں فصلِ گل میں لُٹ رہا ہے حنا آئی تمھارے…

Read More

امیر مینائی ۔۔۔ سرکتی جائے ہے رخ سے نقاب آہستہ آہستہ

سرکتی جائے ہے رخ سے نقاب آہستہ آہستہ نکلتا آ رہا ہے آفتاب آہستہ آہستہ جواں ہونے لگے جب وہ تو ہم سے کر لیا پردہ حیا یک لخت آئی اور شباب آہستہ آہستہ شبِ فرقت کا جاگا ہوں، فرشتو! اب تو سونے دو کبھی فرصت میں کر لینا حساب، آہستہ آہستہ سوالِ وصل پر ان کو عدو کا خوف ہے اتنا دبے ہونٹوں سے دیتے ہیں جواب آہستہ آہستہ وہ بے دردی سے سر کاٹیں امیر اور میں کہوں اُن سے حضور آہستہ آہستہ، جناب آہستہ آہستہ

Read More

عادل منصوری ۔۔۔ پانی کو پتھر کہتے ہیں

پانی کو پتھر کہتے ہیں کیا کچھ دیدہ ور کہتے ہیں خوش فہمی کی حد ہوتی ہیں خود کو دانشور کہتے ہیں کون لگی لپٹی رکھتا ہے ہم تیرے منہ پر کہتے ہیں ٹھیک ہی کہتے ہوں گے پھر تو جب یہ پروفیسر کہتے ہیں سب ان کو اندر سمجھے تھے وہ خود کو باہر کہتے ہیں تیرا اِس میں کیا جاتا ہے اپنے کھنڈر کو گھر کہتے ہیں نظم سمجھ میں کب آتی ہے دیکھ اس کو منتر کہتے ہیں

Read More

عقیدت ۔۔۔ افتاب خان (ماہنامہ بیاض لاہور اکتوبر 2023)

جینے کا مزا آئے سرکار کے سائے میں میں زیست گزاروں گا کردار کے سائے میں آقاؐ نے لگایا تھا اک باغ کھجوروں کا اے بخت وہیں لے چل اشجار کے سائے میں ہر وقت مرے لب پر بس اُنؐ کا درود آئے یہ عمر کٹے انؐ کے افکار کے سائے میں ہوتا ہے گزر ہر پل جنت کی ہواؤں کا بیٹھا ہی رہوں ان ؐکی دیوار کے سائے میں وہ دور صحابہؓ کا ذیشان و معزز تھا اے کاش میں رہتا اس دربار کے سائے میں جو دینِ محمدؐ…

Read More