Tag: غزل
عبدالرحمن مومن ۔۔۔ میں نے جب خواب نہیں دیکھا تھا
میں نے جب خواب نہیں دیکھا تھا تجھ کو بیتاب نہیں دیکھا تھا اس نے سیماب کہا تھا مجھ کو میں نے سیماب نہیں دیکھا تھا ہجر کا باب ہی کافی تھا ہمیں وصل کا باب نہیں دیکھا تھا چاند میں تو نظر آیا تھا مجھے میں نے مہتاب نہیں دیکھا تھا وہ جو نایاب ہوا جاتا ہے اس کو کم یاب نہیں دیکھا تھا ایک مچھلی ہی نظر آئی مجھے میں نے تالاب نہیں دیکھا تھا
Read Moreشاداب الفت ۔۔۔ ہماری آنکھ نے یوں بھی عذاب دیکھا تھا
ہماری آنکھ نے یوں بھی عذاب دیکھا تھا کسی کی آنکھ سے بہتا جواب دیکھا تھا لبوں سے آپ کے گر کر بکھر گئی ہوگی ہر ایک شے پہ جو رنگِ شراب دیکھا تھا ہمارے لمس نے جادو تمہارے رخ پہ کیا تبھی تو شیشے میں تم نے گلاب دیکھا تھا قریب آپ کے میں بھی کھڑا ہوا تھا کل وہی جو خاک میں لپٹا جناب دیکھا تھا
Read Moreرفیق راز ۔۔۔ چاندنی رات میں اک بار اسے دیکھا تھا
چاندنی رات میں اک بار اسے دیکھا تھا چاند سے بر سرِ پیکار اسے دیکھا تھا مثلِ خورشید نمودار وہ اب تک نہ ہوا آخری بار سرِ غار اسے دیکھا تھا میں بھلا کیسے بیاں کرتا سراپا اس کا شبِ یلدا پسِ دیوار اسے دیکھا تھا دل میں اتری ہی نہ تھی روشنی اس منظر کی اولیں بار تو بے کار اسے دیکھا تھا لوگ کیوں کوہ و بیاباں میں اسے ڈھونڈتے ہیں میں نے تو بر سرِ بازار اسے دیکھا تھا اس نے کیا رات کو دیکھا تھا یہ…
Read Moreعابد ملک ۔۔۔ میں نے لوگوں کو نہ لوگوں نے مجھے دیکھا تھا
میں نے لوگوں کو نہ لوگوں نے مجھے دیکھا تھا صرف اس رات اندھیروں نے مجھے دیکھا تھا پوچھتا پھرتا ہوں میں اپنا پتہ جنگل سے آخری بار درختوں نے مجھے دیکھا تھا یوں ہی ان آنکھوں میں رہتی نہیں صورت میری آخر اس شخص کے خوابوں نے مجھے دیکھا تھا اس لئے کچھ بھی سلیقے سے نہیں کر پاتا گھر میں بکھری ہوئی چیزوں نے مجھے دیکھا تھا ڈوبتے وقت بچانے نہیں آئے، لیکن یہی کافی ہے کہ اپنوں نے مجھے دیکھا تھا
Read Moreکیف مراد آبادی ۔۔۔ اہل دل جو بھی بات کہتے ہیں
اہلِ دل جو بھی بات کہتے ہیں کوئی رازِ حیات کہتے ہیں ان کے غم سے ہے جاوداں‘ ورنہ زیست کو بے ثبات کہتے ہیں ہائے وہ دورِ عشق جب آنسو داستانِ حیات کہتے ہیں خوابِ غفلت میں جو گزرتا ہے ہم تو اس دن کو رات کہتے ہیں عشق کی اصطلاح میں غم کو انقلابِ حیات کہتے ہیں جو بھی ہیں واقفِ حقیقتِ دل دل کو ہی کائنات کہتے ہیں لفظ و معنی میں آ نہیں سکتی وہ نظر سے جو بات کہتے ہیں مردِ حق میں تو ماسوا…
Read Moreداغ دہلوی
آپ پچھتائیں نہیں جور سے توبہ نہ کریں آپ کے سر کی قسم داغ کا حال اچھا ہے
Read Moreاثر رامپوری ۔۔۔ وہ ان کا حجاب اور نزاکت کے نظارے
وہ ان کا حجاب اور نزاکت کے نظارے آئے وہ شب وعدہ تصور کے سہارے وہ کالی گھٹا اور وہ بڑھتے ہوئے دھارے زاہد بھی اگر دیکھے تو ساقی کو پکارے وہ جلوہ گہ ناز وہ مخمور نگاہیں اب کیا کہوں یہ لمحے کہاں میں نے گزارے خود حسن کا معیار ترا ذوق نظر ہیں اتنے ہی حسیں آپ ہیں جتنے مجھے پیارے بے وجہ نہیں حسن کی تنویر میں تابش وہ دیتے ہیں خاکستر الفت کے شرارے تم چاہو تو دو لفظوں میں طے ہوتے ہیں جھگڑے کچھ شکوے…
Read Moreقابل اجمیری
مجھی پہ ختم ہیں سارے ترانے شکستِ ساز کی آواز ہوں میں
Read Moreاکرم کنجاہی ۔۔۔۔ پروین فنا سید
پروین فنا سید پروین فنا سید ایک ایسی شاعرہ تھیں جنہوں نے جدت کے نام پر شعری بدعتیں قبول نہیں تھیں۔ لہٰذا اُن کی شاعری اعتدال، انسان دوستی، حسن و جمال اور اعتماد کی شاعری ہے۔اُن کا پہلامجموعۂ کلام ’’حرفِ وفا‘‘ اُن کی بیس برس کی شعری ریاضت کے بعد منظرِ عام پر آیا۔ کتاب کافلیپ تحریر کرتے ہوئے احمد ندیم قاسمی نے لکھا: ’’پروین فنا سیّد کی شاعری عفتِ فکر اور پاکیزگیِ احساس کی شاعری ہے۔غزل کی سی صنفِ شعر میں بھی جس میں اکثر شاعروں نے علامت اور…
Read More