جب ہم طریقِ لذتِ ابہام تک گئے بندِ قبائے زینتِ آرام تک گئے اک جسم کے الاؤ کے کہرام تک گئے دل کو کہاں سے روکتے، انجام تک گئے خوشبو اسی کی ذہن کے آنگن میں بس گئی سوچوں کے سارے زاویے گلفام تک گئے ہم کو سوات وادی کا جس نے پتہ دیا اس مہ جبیں کو ڈھونڈنے کالام تک گئے کس خیرگی کو ماپنے کا شوق تھا کہ ہم جب دامنِ دریدۂ مادام تک گئے نا آشنا خوشی تھی تو واقف ملال تھا ملنے کو دوستوں سے بھی…
Read MoreCategory: ماہ نامہ بیاض
ریاض ندیم نیازی ۔۔۔ نعتیہ ہائیکوز (ماہنامہ بیاض لاہور مارچ 2022 )
جھولی بھر دونا میری مُرادیں بھی آقاؐ پوری کر دونا! ۔۔۔۔۔ ایسا کوئی ہے کُل عالم میں آقاؐ سا جیسا کوئی ہے؟ ۔۔۔۔ کس کو جانا غیر پیارے نبیؐ نے رکھا کب دُشمن سے بھی بَیر! ۔۔۔۔ رحمت کا عالم جب بھی مدینے کو جاؤ بھولو گے سب غم ۔۔۔۔ جب ہم نے پالی سارے غموں کو بھول گئے روضے کی جالی!
Read Moreمرزا آصف رسول ۔۔۔ دُرِّ درود دَر کشا (ماہنامہ بیاض مارچ 2022 )
سب سے عظیم تر دعا صل علی محمدٍ ان پہ درود بھیجنا صل علی محمدٍ صَلِّ عَلیٰ نَبِیِّنَا راہ میں ہے خرد جہاں حیرتِ علم حق رسا صل علی محمدٍ آئنۂ ازل ہیں وہ ، آئنۂ ابد بھی وہ ان پہ نگاہِ کبریا صل علی محمدٍ دیکھا کسی نے کب کہیں ؟ ایسا کوئی زمیں نشیں جس پہ ہر آسماں فدا صل علی محمدٍ ان پہ درود بھیج کے عجز نے پائی آبرو حِلم و ادب کا قد بڑھا صل علی محمدٍ عقل کی علم سے رہی بحث ہی بس…
Read Moreتصدق شعار ۔۔۔ دو غزلیں (ماہنامہ بیاض لاہور مارچ 2022 )
جب سفینہ کسی منجدھار میں آ جاتا ہے کوئی رخنہ مری پتوار میں آ جاتا ہے غم جو الفاظ کی بندش میں نہیں آ سکتا چُپ کے پیرایۂ اظہار میں آ جاتا ہے سنگ چُنوا دیئے جب اُس نے جھروکے کی جگہ اُس کا چہرہ مری دیوار میں آ جاتا ہے بدنصیبی سے اگر بُھوک گلے پڑ جائے گھر کا سامان بھی بازار میں آ جاتا ہے اُس کو رہتا ہے مرے سامنے آنے سے گریز یہ الگ بات کہ اشعار میں آ جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لُطف تو کیا کہ…
Read Moreسید ضیا حسین ۔۔۔ پاس رہتا نہیں تمہارے مَیں (ماہنامہ بیاض مارچ 2022)
پاس رہتا نہیں تمہارے مَیں جان جاؤں نہ عیب سارے مَیں اِک زمانہ بنا لیا دشمن اور کتنے سہوں خَسارے مَیں نیند تو ساتھ ہی گئی اُس کے گنتا رہتا ہوں اب ستارے مَیں آنکھ ملتا ہی رہ گیا اُس دم دیکھ پایا نہیں نظارے مَیں کھول کر خود نہ پڑھ سکا اِن کو بانٹتا ہی رہا سپارے مَیں بات کھُل کر کیا کرو مجھ سے کُچھ سمجھتا نہیں اِشارے مَیں کوئی جلتا ہے گر، جلے بے شک بھر چکا شعر میں شرارے مَیں اک حقیقت ہے، چھوڑ کر خوش…
Read Moreاشرف کمال ۔۔۔ میرے لفظوں کو وہ اظہار میسر آئے (ماہنامہ بیاض مارچ 2022)
میرے لفظوں کو وہ اظہار میسر آئے میری خوشبو مرے دشمن کو بھی چھوکر آئے کاش ایسا بھی کوئی آنکھ میں منظر آئے چاند بڑھ کر ترے سائے کے برابر آئے میرے اندر کے نہ توڑے درودیوار ابھی درد سے کہ دو مری آنکھ سے باہر آئے ایک میں ہوں کہ مرے ہاتھ ہیں خالی اب تک ایک تو ہے کہ ترے ہاتھ سمندر آئے کوئی دشمن مرے معیار پہ اترا ہی نہیں مجھ سے لڑنے کے لیے کوئی سکندر آئے کچھ تو نیچے ہوں امیروں کے فلک بوس مکان…
Read Moreنسیمِ سحر ۔۔۔ مُجھ کو پناہ دے کے جو گیلا درخت ہے (ماہنامہ بیاض اکتوبر ۲۰۲۳)
مُجھ کو پناہ دے کے جو گیلا درخت ہے اللہ کے کرم کا وسیلہ درخت ہے لہجوں میں کاش ذائقہ اُس کا بھی آ سکے جو میٹھی چھاؤں دیتا رَسِیلا درخت ہے مَیں آدمی کے روپ میں ظاہر ہوا تو ہوں لیکن در اصل میرا قبیلہ درخت ہے کوئی وہاں پڑاؤ نہیں ڈالتا کبھی موجود جس زمین پہ نیلا درخت ہے اُس شاخِ گُل نے دیکھ کے بے ساختہ کہا کیسا جوان، چھَیل چھبیلا درخت ہے ! بے حد قریب رات کی رانی کھِلی ہوئی خوشبو میں مست مست، نشیلا…
Read Moreاسلام عظمی ۔۔۔ تنہا زمین اُس پہ مگر آسماں بہت (ماہنامہ بیاض اکتوبر ۲۰۲۳)
اک شہرِ نابکار میں ہیں ناصحاں بہت تنہا زمین اُس پہ مگر آسماں بہت یاں جان و دِل کا بچنا بہت ہی محال ہے یہ کار زارِ عشق ہے اور ہے زیاں بہت کیسے ہو داستان میں اپنا نشاں کوئی اپنی رضا سے ہم ہوئے ہیں رایگاں بہت اب کیا بتائیں ہم کہاں تھے دوسرے کہاں اور کیوں لکھا ہے تذکرۂ دوستاں بہت اس عارضی جہاں میں بنے کیسے مستقر دِکھنے میں تو دراز ہے پر ہے کہاں بہت احسان ‘ خالد اور سلیمی ‘ نجیب تھے لاہور میں تھے…
Read Moreخاور اعجاز … دو غزلیں (ماہنامہ بیاض اکتوبر ۲۰۲۳)
دن میں آرام مَیں نہیں کرتا کچھ سرِ شام مَیں نہیں کرتا کامیابِ جنوں تبھی تو ہُوں عقل کے کام مَیں نہیں کرتا زندگی بھر کی دوستی کیجے گام دو گام مَیں نہیں کرتا گفتگو منتخب سے رکھتا ہُوں جلسۂ عام مَیں نہیں کرتا بحث و تمحیص آپ ہی جانیں فالتو کام مَیں نہیں کرتا ۔۔۔۔۔۔۔ یونہی تو خواب نہیں ہر کسی دیوانے کا خلد حصہ ہی نہ ہو نجد کے ویرانے کا دوستوں سے ہی مجھے خدشہ ہے بہکانے کا دشمنوں کے تو مَیں قابو میں نہیں آنے کا…
Read Moreخاور اعجاز ۔۔۔ امکان (نثری نظم) ۔۔۔ ماہنامہ بیاض اکتوبر ۲۰۲۳)
امکان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رات کو پیدا ہونے والی تاریکی روشنی کا مطالبہ کرتے ہُوئے گھبرا جاتی ہے جسے غلامی نے جنم دیا ہو وہ آواز آزادی کی صدا لگاتے ہُوئے لڑکھڑا جاتی ہے دیوار کا سہارا لے کر چلتے ہُوئے سائے میں دِیے کی چاپ سننے کی سکت باقی نہیں رہتی اُفق پر ڈوبتا ہُوا سورج ہماری دن بھر کی جمع کی ہُوئی چنگاریاں بجھائے دے رہا ہے آؤ کچھ دیر کے لیے آنکھیں میچ لیں اور اگلی صدی کے آنے تک اپنا سر جسم سے الگ کر کے حفاظت سے…
Read More