باغ کی رنگت سنہری رُت خزانی سے ہوئی کیمیا یہ خاک اپنی رایگانی سے ہوئی حل ہوا ہے مسئلہ یوں باہمی تفہیم سے گفتِ اوّل کی درستی گفتِ ثانی سے ہوئی رہ گیا کردار باقی یا مرا اخراج ہے بات کچھ واضح نہیں اب تک کہانی سے ہوئی بعد میں دیگر عوامل نے بنائی تھی جگہ اصل میں تو یہ زمیں تشکیل پانی سے ہوئی ہوں مکینِ بے سکونت کتنے رفت و حال کا منقسم یہ ذات ہر نقلِ زمانی سے ہوئی کب سے رکھا جا رہا ہوں درمیانِ وصل…
Read MoreTag: caarwan
اصغر گونڈوی
نالوں سے میں نے آگ لگا دی جہان میں صیاد جانتا تھا فقط مشتِ پر مجھے
Read Moreایوب خاور ۔۔۔ ضبط کرنا نہ کبھی ضبط میں وحشت کرنا
محمد افتخار شفیع ۔۔۔ جدید ہوتے ہوئے کہنہ سال آدمی ہوں
گلزار ۔۔۔ صبح صبح اٹھتے ہی ۔۔۔۔۔
عامر سہیل ۔۔۔ اک وظیفہ ہے کسی درد کا دہرایا ہوا
اک وظیفہ ہے کسی درد کا دہرایا ہوا جس کی زد میں ہے پہاڑوں کا دھواں آیا ہوا یہ ترے عشق کی میقات، یہ ہونی کی ادا دھوپ کے شیشے میں اک خواب سا پھیلایا ہوا باندھ لیتے ہیں گرہ میں اسی منظر کی دھنک ہم نے مہمان کو کچھ دیر ہے ٹھہرایا ہوا طائرو ابر و ہوا بھی ہیں اسی الجھن میں کیسے دو ہونٹوں نے اک باغ ہے دہکایا ہوا چھید ہیں عمر کی پوشاک پہ تنہائی کے خوش نما قریوں میں ہوں آپ سے اکتایا ہوا رات آتی…
Read Moreفرید جاوید ۔۔۔ منزلیں دور راستے موہوم
ثروت حسین ۔۔۔ قندیل مہ و مہر کا افلاک پہ ہونا
ساقی فاروقی
جانے کیا ہونے والا ہے نیند نہ آئے خوف سے رات ڈرائے، شہر ڈرائے ایک اکیلی ذات کو
Read More