غزل ۔۔۔ میں ڈوبتے خورشید کے منظر کی طرح ہوں ۔۔۔ سید آلِ احمد

غزل ۔۔۔۔ میں ڈوبتے خورشید کے منظر کی طرح ہوں زندہ ہوں مگر یاد کے پتھر کی طرح ہوں آثار ہوں اب کہنہ روایاتِ وفا کا اک گونج ہوں اور گنبدِ بے دَر کی طرح ہوں اک عمر دلِ لالہ رُخاں پر رہا حاکم اب یادِ مہ و سال کے پیکر کی طرح ہوں کس کرب سے تخلیق کا در بند کیا ہے مت پوچھ کہ صحرا میں بھرے گھر کی طرح ہوں بپھرے تو کنارے نظر آتے نہیں جس کے میں ضبط کے اُس ٹھہرے سمندر کی طرح ہوں…

Read More

غزل ۔۔۔۔ شاخِ آشوب پہ کب کوئی کلی کھلتی ہے

  شاخِ آشوب پہ کب کوئی کلی کھلتی ہے یہ الگ بات کہ اک آس لگا رکھی ہے کتنا ساکت ہے ترے عہد کے اخلاص کا جسم سوچ کی آنکھ بھی پتھرائی ہوئی لگتی ہے پھر کوئی تازہ مصائب کا بھنور دیکھیں گے آب تسکیں پہ کوئی لہر نئی اُبھری ہے حوصلہ ہار گیا دل تو چھٹی درد کی دُھند سوچ کے پائوں ہوئے شل تو سحر دیکھی ہے آنکھ ہر لمحہ نئے جھوٹ میں سرگرداں ہے دل ہر اک لحظہ نئی چوٹ کا زندانی ہے اب کسے دل میں…

Read More