مرزا اسداللہ خاں غالب ۔۔۔ غزل

بزمِ شاہنشاہ میں اشعار کا دفتر کھلا رکھیو یارب یہ درِ گنجینۂ گوہر کھلا شب ہوئی، پھر انجمِ رخشندہ کا منظر کھلا اِس تکلف سے کہ گویا بتکدے کا در کھلا گرچہ ہوں دیوانہ، پر کیوں دوست کا کھاؤں فریب آستیں میں دشنہ پنہاں ، ہاتھ میں نشتر کھلا گو نہ سمجھوں اس کی باتیں ، گونہ پاؤں اس کا بھید پر یہ کیا کم ہے کہ مجھ سے وہ پری پیکر کھلا ہے خیالِ حُسن میں حُسنِ عمل کا سا خیال خلد کا اک در ہے میری گور کے…

Read More

ڈاکٹر اختر شمار ۔۔۔۔ میرا دشمن بھی خاندانی ہو

Read More

مظفر حنفی ۔۔۔ اک ستارہ ہے جو بیدار کیا کرتا ہے

اک ستارہ ہے جو بیدار کیا کرتا ہے رات بھر تذکرۂ یار کیا کرتا ہے بیٹھنے پاتے نہیں سایۂ دیوار میں ہم کوئی گریہ پسِ دیوار کیا کرتا ہے وہ بھڑکتا ہے مرے سینے میں شعلے جیسا پھر اسی آگ کو گلزار کیا کرتا ہے ایک ناسور ہے احساس میں حق تلفی کا جو مری ذات کو مسمار کیا کرتا ہے بادباں کھول کے دیکھو تو سفینے والو خشک دریا بہت اصرار کیا کرتا ہے کوئی خوشبو کی طرح نام ترا لے لے کر پھول کے کان میں گنجار کیا…

Read More

حفیظ جونپوری ۔۔۔ پوچھ کر حال سنے کوئی تو کہنا اچھا

پوچھ کر حال سنے کوئی تو کہنا اچھا اور ایسا جو نہ ہو چپکے ہی رہنا اچھا عشق کا راز کسی سے نہیں کہنا اچھا ہو سکے ضبط تو خاموش ہی رہنا اچھا گریہ روکا تھا کہ اک آگ لگی سینے میں لوگ سچ کہتے ہیں ناسور کا بہنا اچھا وصف‘ جنت کا نہ دنیا کی مذمت ہے وہاں مسجدوں سے تو خرابات میں رہنا اچھا ایک دن جی سے گزرنا کہیں اس سے بہتر دل پہ ہر روز کا صدمہ نہیں سہنا اچھا کیا ملا حضرتِ موسیٰ کو کسی…

Read More

حفیظ جونپوری ۔۔۔ دنیا میں یوں تو ہر کوئی اپنی سی کر گیا

دنیا میں یوں تو ہر کوئی اپنی سی کر گیا زندہ ہے اس کا نام کسی پر جو مر گیا صبحِ شبِ وصال ہے، آئینہ ہاتھ میں شرما کے کہہ رہے ہیں کہ چہرہ اُتر گیا اتنا تو جانتے ہیں کہ پہلو میں دل نہیں اس کی خبر نہیں کہ کہاں ہے، کدھر گیا ناصح کہاں کا چھیڑ دیا تو نے آ کے ذکر اس کا خٰیال پھر مجھے بے چین کر گیا دو دن میں یہ مزاج کی حالت بدل گئی کل سر چڑھا تھا، آج نظر سے اُتر…

Read More

ماجد صدیقی ۔۔۔ اپنے گھر میں جبر کے ہیں فیضان کئی

اپنے گھر میں جبر کے ہیں فیضان کئی پل بھر میں دھُنک جاتے ہیں ابدان کئی بٹتا دیکھ کے ریزوں میں مجبوروں کو تھپکی دینے آ پہنچے ذیشان کئی شاہ کا در تو بند نہ ہو پل بھر کو بھی راہ میں پڑتے ہیں لیکن دربان کئی طوفاں میں بھی گھِر جانے پر، غفلت کے مرنے والوں پر آئے بہتان کئی دل پر جبر کرو تو آنکھ سے خون بہے گم سم رہنے میں بھی ہیں بحران کئی ہم نے خود دیکھا ہاتھوں زور آور کے قبرستان بنے ماجد دالان…

Read More

ڈاکٹر خالدہ انور ۔۔۔ تیرے ہی نام سے ہے عبارت کہ جو بھی تھی

تیرے ہی نام سے ہے عبارت کہ جو بھی تھی یہ عمر بھر کی ساری مسافت کہ جو بھی تھی مخمور موسموں کی رفاقت کہ جو بھی تھی اور اس پہ آنسوؤں کی بغاوت کہ جو بھی تھی قائم ہے اب بھی دل میں اُسی رنگ ڈھنگ سے وہ تجھ پہ اعتبار کی عادت کہ جو بھی تھی سب کچھ گنوا کے باعثِ صد افتخار ہے وہ رِشتۂ وفا کی طہارت کہ جو بھی تھی بس کام آ رہی ہے ترے ہجر میں وہی اِک عمرِ رفتگاں کی ریاضت کہ…

Read More

افتخار شاہد ۔۔۔ درد کچھ اور بڑھا آپ کے آ جانے سے

درد کچھ اور بڑھا آپ کے آ جانے سے ہم کو رخصت نہ ملی اب بھی شفاخانے سے ایک مدت مَیں ترے لمس کی شدت میں رہا چھو گیا ہاتھ ترے ہاتھ کے دستانے سے اس نے بھی طرزِ تکلم کو سنبھالے رکھا میں بھی ڈرتا ہی رہا بات کے بڑھ جانے سے ورنہ میں ہاتھ پہ کرنے ہی لگا تھا بوسہ خواب ٹوٹا ہے مگر آپ کے گھبرانے سے ٹھوکریں کھا کے بھی پلٹیں تو غنیمت جانو کون سمجھا ہے یہاں بات کے سمجھانے سے ہم کو حاجت ہی…

Read More

زاہد محمود زاہد ۔۔۔ اگرچہ شام و سحر در بہ در ہوائیں ہیں

اگرچہ شام و سحر در بہ در ہوائیں ہیں کسی چراغ کی زد پر مگر ہوائیں ہیں یہ آگ بڑھنے سے پہلے ہی روک لو ورنہ جو شعلہ بھڑکا اِدھر تواُدھر ہوائیں ہیں کوئی چراغ ہمیں روشنی نہیں دیتا براجمان ہر اک بام پر ہوائیں ہیں تمھاری آنکھ میں جب دھول جھونکتے گزریں سمجھ میں آئے گا تب بے خبر! ہوائیں ہیں گلِ حیات کھلا ہے انھی کے ہونے سے کہ یہ ہوائیں بہت کارگر ہوائیں ہیں چراغ تو نے جلایا تو ہے مگر زاہد سفر ہے شام کا اور…

Read More