گونجتے ہیں، شکیب، خوابوں میں آنے والی کسی صدی کے گیت
Read MoreTag: شکیب جلالی
شکیب جلالی ۔۔۔ بستی نئی بسی ہے پرانے کھنڈر کے ساتھ
یادیں ہیں اپنے شہر کی اہل سفر کے ساتھ صحرا میں لوگ آئے ہیں دیوار و در کے ساتھ منظر کو دیکھ کر پس منظر بھی دیکھیے بستی نئی بسی ہے پرانے کھنڈر کے ساتھ سائے میں جان پڑ گئی دیکھا جو غور سے مخصوص یہ کمال ہے اہلِ نظر کے ساتھ اک دن ملا تھا بام پہ سورج کہیں جسے الجھے ہیں اب بھی دھوپ کے ڈورے کگر کے ساتھ اک یاد ہے کہ دامنِ دل چھوڑتی نہیں اک بیل ہے کہ لپٹی ہوئی ہے شجر کے ساتھ اس…
Read Moreمنچندا بانی— ایک گم شدہ خواب کا مغنی ۔۔۔ ارشد نعیم
منچندا بانی — ایک گم شدہ خواب کا مغنی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منچندا بانی نے آنکھ کھولی تو ایک ہزار سال کے تجربات سے تشکیل پانے والی ہند اسلامی تہذیب ایک حادثے کی طرف بڑھ رہی تھی۔ ہندوستان آزادی کی تحریک کا مرکز بنا ہوا تھا اور ہندوستان کی تقسیم آخری مراحل میں تھی اور ایک ایسی ہجرت کے سائے دو قوموں کے سر پر منڈلا رہے تھے جو لہو کی ایک ایسی لکیر چھوڑ جانے والی تھی جسے صدیوں تک مٹانا ممکن نہیں ہوگا۔ یہ احساس، یہ منڈلاتا ہوا خطرہ ہمیں…
Read Moreشکیب جلالی
اک نقرئی کھنک کے سوا کیا ملا شکیب ٹکڑے یہ مجھ سے کہتے ہیں ٹوٹی پلیٹ کے
Read Moreانفرادیت پرست ۔۔۔ شکیب جلالی
انفرادیت پرست ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک انساں کی حقیقت کیا ہے زندگی سے اسے نسبت کیا ہے آندھی اٹھے تو اڑا لے جائے موج بپھرے تو بہا لے جائے ایک انساں کی حقیقت کیا ہے ڈگمگائے تو سہارا نہ ملے سامنے ہو پہ کنارا نہ ملے ایک انساں کی حقیقت کیا ہے کُند تلوار قلم کر ڈالے سرد شعلہ ہی بھسم کر ڈالے زندگی سے اسے نسبت کیا ہے ایک انساں کی حقیقت کیا ہے
Read Moreشکیب جلالی
وہی جھکی ہوئی بیلیں، وہی دریچہ تھا مگر وہ پھول سا چہرہ نظر نہ آتا تھا
Read Moreشکیب جلالی
خزاں کے چاند نے پوچھا یہ جھک کے کھڑکی میں کبھی چراغ بھی چلتا ہے اس حویلی میں یہ آدمی ہیں کہ سائے ہیں آدمیت کے گزر ہوا ہے مرا کس اجاڑ بستی میں جھکی چٹان، پھسلتی گرفت، جھولتا جسم میں اب گرا ہی گرا تنگ و تار گھاٹی میں زمانے بھر سے نرالی ہے آپ کی منطق ندی کو پار کیا کس نے اُلٹی کشتی میں جلائے کیوں اگر اتنے ہی قیمتی تھے خطوط کریدتے ہو عبث راکھ اب انگیٹھی میں عجب نہیں جو اُگیں یاں درخت پانی…
Read More