مرے کس کام کے ہیں اب یہ کوے اور کبوتر عبث برباد گھر کی چاردیواری کریں گے À quoi me servent désormais corbeaux et colombesIls détruiront en vain les murs de ma demeure
Read MoreMonth: 2025 جون
حفیظ جونپوری ۔۔۔ شب وصل ہے بحث حجت عبث
شب وصل ہے بحث حجت عبث یہ شکوے عبث یہ شکایت عبث ہوا ان کو کب اعتماد وفا جتاتے رہے ہم محبت عبث یہاں اب تو کچھ اور سامان ہے وہ آتے ہیں بہر عیادت عبث نصیبوں سے اپنے ہے شکوہ ہمیں کریں کیوں کسی کی شکایت عبث مرا حال سن کر وہ ہیں بے قرار کیا کس نے ذکر محبت عبث فلک مر مٹوں سے نہ رکھ یہ غبار مٹا بے کسوں کی نہ تربت عبث سنوں گا تری ہوش میں آ تو لوں ابھی سے ہے ناصح نصیحت…
Read Moreمحمد علوی ۔۔۔ زمیں کہیں بھی نہ تھی چار سو سمندر تھا
زمیں کہیں بھی نہ تھی چار سو سمندر تھا کسے دکھاتے بڑا ہول ناک منظر تھا لڑھک کے میری طرف آ رہا تھا اک پتھر پھر ایک اور پھر اک اور بڑا سا پتھر تھا فصیلیں دل کی گراتا ہوا جو در آیا وہ کوئی اور نہ تھا خواہشوں کا لشکر تھا بلا رہا تھا کوئی چیخ چیخ کر مجھ کو کنویں میں جھانک کے دیکھا تو میں ہی اندر تھا بہت سے ہاتھ اگ آئے تھے میری آنکھوں میں ہر ایک ہاتھ میں اک نوک دار خنجر تھا وہ…
Read Moreماجد صدیقی ۔۔۔ وہ کہ جو دھونس جمانے آگ سا برسا ہے
وہ کہ جو دھونس جمانے آگ سا برسا ہے کہتے ہیں ہم محتاجوں کا مسیحا ہے بہرِ تحفّظ، گنتی کی کچھ راتوں کو بھیڑ نے چِیتے کو مہماں ٹھہرایا ہے جو چڑیا سونے کا انڈا دیتی تھی غاصب اب کے اُس چڑیا پر جھپٹا ہے کیا کہیے کس کس نے مستقبل اپنا ہاتھ کسی کے کیونکر گروی رکھا ہے بپھری خلق کے دھیان کو جس نے بدلا وہ شعبدہ بازوں کی ڈفلی کا کرشمہ ہے چودھری اور انداز سے خانہ بدوشوں سے اپنا بھتّہ ہتھیانے آ پہنچا ہے
Read Moreسید آل احمد ۔۔۔ سامنے والے گھر میں بجلی رات گئے تک جلتی ہے
سامنے والے گھر میں بجلی رات گئے تک جلتی ہے شاید مجھ سے اب تک پگلی آس لگائے بیٹھی ہے میری کسک‘ یہ میری ٹیسیں‘ آپ کو کیوں محسوس ہوئیں؟ آپ کی آنکھوں میں یہ آنسو! دل تو میرا زخمی ہے نفس نفس اک تازہ سرابِ منزل خواب ہے یہ دُنیا نظر نظر قدموں سے خواہش سایہ بن کر لپٹی ہے چپ مت سادھو‘ جھوٹ نہ بولو‘ اب تو اطمینان سے ہو اب تو ہر دن سو جاتا ہے‘ اب تو ہر شب جاگتی ہے دل ایسا معصوم پرندہ‘ اپنے…
Read Moreمحسن اسرار
مرے خدشات ان آنکھوں سے ظاہر ہو رہے ہیں عجب انداز سے نقلِ مکانی ہو رہی ہے Mes craintes se lisent dans ses yeux silencieuxQuelque chose s’en va — d’une manière étrange, presque élégieuse
Read Moreشاہین عباس
آج گئے دنوں کے ساتھ ، اپنی گلی میں کیا گئے بند تھا در ، خفا ہوا ، خالی تھا گھر ، برس پڑا Aujourd’hui, avec les jours enfuis, je suis passé par mon ancienne ruelle La porte close m’a blessé, la maison vide… et le ciel s’est mis à pleurer
Read Moreشاہین عباس
پانی یہاں سے چل دیا ، تجھ کو پکارتا ہوا بیٹھا اب اپنے حوض پر ، پانی کا انتظار کر L’eau s’en est allée d’ici, t’appelant dans son élanReste au bord de ton bassin — attends qu’elle revienne, lentement
Read Moreشاہین عباس
انگلیا ں خاک میں اب پھیر رہے ہیں افسوس بات نمٹا نہ سکے لوح و قلم ہوتے ہوئے Mes doigts se perdent désormais dans la poussière, hélas Même avec la plume et la tablette, les mots n’ont pu sceller le sort
Read Moreشاہین عباس
گلی کی ساری تصویروں میں جیسے جان پڑ جاتی یہ آوازہ ، بُرا کیا تھا ، اگر آواز ہو سکتا L’eau est partie d’ici, t’appelant doucementAssis maintenant au bord de sa fontaine, attends le retour des flots
Read More