احسان شاہ ۔۔۔۔۔۔۔ ہماری آئنوں سے کب ملاقاتیں نئی ہیں

ہماری آئنوں سے کب ملاقاتیں نئی ہیں مگر اس بار لگتا ہے کہ کچھ باتیں نئی ہیں نئے چہرے پہن کر جو یہاں آئے ہیں ان کی پرانی حاجتیں ہیں اور مناجاتیں نئی ہیں اگرچہ آسماں خالی پڑا ہے بادلوں سے زمینوں پر مگر اب کے یہ برساتیں نئی ہیں یہاں آئے ہوئے ہم کو ابھی کچھ دن ہوئے ہیں ہمارے واسطے یہ دن نئے ،راتیں نئی ہیں مری بستی میں نووارد ہیں کچھ ایسے قبائل قدیمی سوچ ہے اُن کی مگر باتیں نئی ہیں

Read More

جامع تاریخ ہند ۔۔۔۔۔ محمد حبیب، خلیق احمد نظامی

جامع تاریخ ہند Download محمد حبیب، خلیق احمد نظامی

Read More

پسند کا محاذ ….. جلیل عالی

پسند کا محاذ ………….. رن پڑا تو وفا کے متوالے توڑ کر کل کی سوچ زنجیریں پھاند کر ذات کی فصیلوں کو آگ اور خون کے سمندر میں کیسے دیوانہ وار کود گئے اور ہم کو یہ انتطار کہ کب معرکہ ختم ہو تو اپنا قلم فاتحوں کے لئے قصیدے کہے مرنے والوں کے مرثیے لکھے

Read More

ڈاکٹر شفیق آصف ۔۔۔۔۔ آندھیوں سے بادباں جب پھٹ گئے

آندھیوں سے بادباں جب پھٹ گئے ہم تلاطم کے مقابل ڈٹ گئے جگمگاتے کس طرح وہ آئنے موسموں کی گرد سے جو اٹ گئے دائرہ کتنا بڑھایا جائے اب رقص کرنے والے پائوں کٹ گئے پتہ پتہ رُت بکھرنے لگ گئی جن کے سائے گھٹ گئے، وہ کٹ گئے پائوں میں کیا ڈگمگائی ہے زمین اپنی اپنی راہ سے سب ہٹ گئے اب کہاں پہچان ممکن ہے شفیق آئنہ ٹوٹا تو ہم بھی بٹ گئے

Read More

اسلم انصاری

ساحلِ غم کی ریت پر کس کی صدا کا خون ہے کس کو پکارتا رہا، کل کوئی ڈوبتا ہوا

Read More

محشر بدایونی

نشہ ہے، جہل ہے، شر ہے، اجارہ داری ہے ہماری جنگ کئی مورچوں پہ جاری ہے

Read More

علی ارمان ۔۔۔۔۔ جس روز شاعری کی خوشی ختم ہو گئی

جس روز شاعری کی خوشی ختم ہو گئی سمجھو کہ زندگی بھی مری ختم ہو گئی اے شہر! مَیں نہ کہتا تھاجانے دے دشت میں لے آخری سڑک بھی تری ختم ہو گئی یادوں کے آسماں پہ پرندوں کی اک قطار آہستگی سے چلتی ہوئی ختم ہو گئی آنسو تمھاری آنکھ میں دیکھوں گا کس طرح یہ سوچنے میں دل کی گلی ختم ہو گئی آج ایک خواب جاگتے میں لے اُڑا مجھے اُمید کی میانہ روی ختم ہوگئی اے زُلفِ زندگی! ترے بست وکشاد میں ہم سادگاں کی سادہ…

Read More

بول کنارے …… عنبرین صلاح الدین

بول کنارے ………….. کانچ کی چُوڑی ہاتھ پہ توڑ کے ٹکڑوں میں اِک خواب سجایا بادل میں اِک شکل بنا کر پورے سال کی بارش آنکھ سے برسا دی رُخساروں سے پلک اُٹھا کر اُس کے تیز کنارے سے اِک چھید کیااور ایک لکیرلپک کر آئی رات کی کالی چادر پر اِک تارا ٹوٹا اپنی دُعا میں انجانا اِک نام لیا اورلمبے بالوں کی اِک سیڑھی شام کی کھڑکی سے لٹکائی کتنے بوجھل پہر گزارے جانے کس بے درد سے پل میں اپنے پانْو کو خواب کی بہتی جھیل میں…

Read More

میر تقی میر

اب کچھ مزے پہ آیا شاید وہ شوخ دیدہ آب اُس کے پوست میں ہے جوں میوہِ رسیدہ

Read More

انور شعور ۔۔۔۔۔۔۔۔ گھروں میں سوتے سوتے لوگ ہر رات اُٹھنے لگتے ہیں

گھروں میں سوتے سوتے لوگ ہر رات اُٹھنے لگتے ہیں تو آبادی میں کیا کیا انقلابات اُٹھنے لگتے ہیں نہیں اُٹھتے اگر سوئے ہوئے سلطان تو آخر جو قابو میں نہیں آتے وہ حالات اُٹھنے لگتے ہیں جواب آنے میں لگ جاتی ہیں اکثر مدتیں، لیکن جواب آتے ہی سر میں پھر سوالات اُٹھنے لگتے ہیں کوئی صدمہ نہیں اُٹھتا شروعِ عشق میں تاہم بتدریج آدمی سے سارے صدمات اُٹھنے لگتے ہیں شعورؔ اپنے لبوں پر تم خوشی سے مہر لگنے دو دبانے سے تو افکار و خیالات اُٹھنے لگتے…

Read More