ڈاکٹرغفور شاہ قاسم ۔۔۔ مجید امجد:سفاک تنہائیوں کا شاعر

مجید امجد ۔۔ سفاک تنہائیوں کا شاعر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایذرا پاؤنڈ کا کہنا ہے: ’’شاعری وہ تنہا شخص کرتا ہے جس کی خاموشی اور تنہائی ناقابلِ برداشت ہو جایا کرتی ہے۔‘‘ پاؤنڈ کی یہ بات بڑی جامعیت اور موزونیت کے ساتھ مجید امجد کی شخصیت اور شاعری کا احاطہ کرتی ہے۔ مجید امجد کے شب و روز کا مطالعہ کیا جائے اور واقعاتِ حیات کو مدِ نظر رکھا جائے تو یہ تلخ حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے کہ پیدائش سے لے کر وفات تک وہ الم ناک حادثات سے دوچار ہوتے…

Read More

نیا آدمی ۔۔۔ خلیل الرحمن اعظمی

نیا آدمی ۔۔۔۔۔۔ اور پھر یوں ہوا جو پرانی کتابیں، پرانے صحیفے بزرگوں سے ورثے میں ہم کو ملے تھے انھیں پڑھ کے ہم سب یہ محسوس کرنے لگے ان کے الفاظ سے کوئی مطلب نکلتا نہیں ہے جو تعبیر و تفسیر اگلوں نے کی تھی معانی و مفہوم جو ان پہ چسپاں کیے تھے اب ان کی حقیقت کسی واہمے سے زیادہ نہیں ہے اور پھر یوں ہوا چند لوگوں نے یہ  آ کے ہم کو بتایا کہ اب ان پرانی کتابوں کو تہہ کر کے رکھ دو ہمارے…

Read More

میاں داد خاں سیاح

طریقِ عشق میں علم و ہنر سب رائیگاں دیکھا یہ نقشِ زر زمانے میں پئے تسخیر بہتر ہے

Read More

زعیم رشید ۔۔۔ جنبشِ ارض و سماوات میں آئے ہوئے ہیں

جنبشِ ارض و سماوات میں آئے ہوئے ہیں ان دنوں گردشِ حالات میں آئے ہوئے ہیں اب جو تو چاہے، جہاں چاہے ہمیں لے جائے کیا کریں ہم جو ترے ہاتھ میں آئے ہوئے ہیں میں اکیلا ہی نہیں آیا تجھے دیکھنے کو کچھ ستارے بھی مرے ساتھ میں آئے ہوئے ہیں اے مہِ چار دہم تیری خوشی کی خاطر اِک سیہ رات کی بہتات میں آئے ہوئے ہیں میں بھی دن رات یہاں کوزہ گری کرتا ہوں اُس کے سب رنگ مِری ذات میں آئے ہوئے ہیں عشق خود…

Read More

شناور اسحاق ۔۔۔ نہ مو قلم، نہ پرندے، نہ چشمِ نم مرے بعد

نہ مو قلم، نہ پرندے، نہ چشمِ نم مرے بعد رکھے گا کون ترے باغ میں قدم مرے بعد ہوائے شام! تری بازگشت مجھ تک ہے کرے گا کون مرے رفتگاں کا غم مرے بعد مگر یہ رقص، بغیرِ کمان و تیر و تبر رہے گی شہرِ غزالاں میں رسمِ رَم مرے بعد بہت قدیم سر و کار جائے گا مرے ساتھ پیے گا کون تری بے رخی کا سم مرے بعد جنوں میں صحو، خبر میں حلولِ بے خبری یہ ساز و رخت نہ ہو گا کبھی بہم مرے…

Read More

محمد مختار علی ۔۔۔ غزل کو اپنے جنوں سے دراز قد کیے جائیں

غزل کو اپنے جنوں سے دراز قد کیے جائیں ہم اہلِ دِل یونہی آرائشِ خرد کیے جائیں جگر ہو خوں تو عنایت ہو ایک مصرعۂ تر !! سخن عطا ہوں تو پھر کیسے مُسترد کیے جائیں بس ایک شرط پہ میں ہار مان سکتا ہوں مرے خلاف مرے یار نامزد کیے جائیں سو   طَے ہوا کہ یہ اعجازِ دستِ قدرت ہے کسی چراغ سے سورج اگر، حسد کیے جائیں کسی لغت سے وہ مفہوم پا نہیں سکتے! جو حرف حلقۂ دانشوراں میں رَد کیے جائیں اور ایک ہم ہیں کہ…

Read More

قمر رضا شہزاد

مَیں کس طلب میں ہوا ہوں زمین سے بے دخل فلک کے پار مجھے کون سی صدا لائی

Read More

سعید راجہ ۔۔۔ چراغوں کو بجھایا جا چکا ہے

چراغوں کو بجھایا جا چکا ہے سو اب ہر طاق میں دھوکا دھرا ہے چمن کو سرخ مٹی چاہیے کیا مجھے پھر سے پکارا جا رہا ہے بدن میرا کبھی ایسا نہیں تھا تری قربت میں نیلا پڑ گیا ہے یہ پیشانی کے گھاؤ جانتے ہیں مرا دیوار سے جھگڑا ہوا ہے ابھی تک لوگ کیوں بیٹھے ہوئے ہیں سنا ہے آنے والا جا چکا ہے چلو اس بات کی تصدیق کر لیں مجھے ہنستے ہوئے دیکھا گیا ہے میں کب کا جا چکا ہوتا یہاں سے سعید اس نے…

Read More

غالب

بقدرِ ظرف ہے ساقی! خمارِ تشنہ کامی بھی جوتو دریائے مے ہے، تو میں خمیازہ ہوں ساحل کا

Read More

شمشیر حیدر ۔۔۔ تری زمیں نہ ترے آسماں سے باہر ہوں

Read More