زمانے سے باہر ……………. زمانی تسلسل میں مَیں کام کرتا نہیں ہوں زمانے سے باہر کی رَو چاہیے میرے دل کو زمانہ تو اِک جزر ہے مَد تو باہر کسی لازماں، لامکاں سے اُمڈتا ہے قطاروں میں لگنے سے حاصل نہیں کچھ کہ وہ لمحۂ مُنتظر تو کسی اجنبی سمت سے آتے دُم دار تارے کی صورت ۔۔۔ جو صدیوں میں آتا ہے ۔۔۔ آئے گا اور اِن قطاروں میں بھٹکے مداروں کو مقراض کے طور سے جانبِ عرض میں قطع کرتا نکل جائے گا زمانے کے اِس بانجھ پَن…
Read MoreTag: دل
محسن بھوپالی
اب بھی کہتا ہوں اپنے دل کی بات کس قدر وقت ناشناس ہوں مَیں
Read Moreشکیل بدایونی ۔۔۔۔۔۔ جل کے اپنی آگ میں خود صورت پروانہ ہم
جل کے اپنی آگ میں خود صورتِ پروانہ ہم بن گئے ہم رشتہء خاکِ درِ جانانہ ہم دیکھیے کس راہ لے جائے سکوں کی جستجو چل تو نکلے ہیں بہ یک اندازِ بے تابانہ ہم حالِ دل، احوالِ غم، شرحِ تمنا، عرضِ شوق بے خودی میں کہہ گئے افسانہ در افسانہ ہم پارسائی خندہ زن، وعدہ خلافی طعنہ ریز ہائے کس مشکل سے پہنچے تا درِ مے خانہ ہم فرصتِ یک لمحہ دے دیتی جو فکرِ روز گار یاد کر لیتے کوئی بھولا ہوا افسانہ ہم جب جفا و جور…
Read Moreکاروبار …… مصطفیٰ زیدی
کاروبار ۔۔۔۔۔۔۔ دماغ شل ہے ، دل ایک اک آرزو کا مدفن بنا ہوا ہے اِک ایسا مندر جو کب سے چمگادڑوں کا مسکن بنا ہوا ہے نشیب میں جیسے بارشوں کا کھڑا ہوا بےکنار پانی بغیر مقصد کی بحث ، اخلاقیات کی بےاثر کہانی سحر سے بےزار، رات سے بےنیاز لمحات سے گُریزاں نہ فِکرِ فردا نہ حال و ماضی، نہ صبحِ خنداں ، نہ شامِ گِریاں پُکارتا ہے کوئی تو کہتا ہوں اِس کو سن کر بھی کیا کرو گے اِدھر گزر کر بھی کیا ملے گا ،…
Read Moreعزیز لکھنوی
دل میں ہجومِ یاس سے، اے وائے بے کسی گنجائشِ تصورِ دیدار بھی نہیں
Read Moreآفتاب اقبال شمیم ۔۔۔۔۔ میں جب بھی چھونے لگوں، تم ذرا پرے ہو جاؤ
میں جب بھی چھونے لگوں، تم ذرا پرے ہو جاؤ یہ کیا کہ لمس میں آتے ہی دوسرے ہو جاؤ یہ کارِ عشق مگر ہم سے کیسے سرزد ہو الاؤ تیز ہے، صاحب! ذرا پرے ہو جاؤ تمھاری عمر بھی اس آب کے حساب میں ہے نہیں کہ اس کے برسنے سے تم ہرے ہو جاؤ یہ گوشہ گیر طبیعت بھی ایک محبس ہے ہوا کے لمس میں آؤ، ہرے بھرے ہو جاؤ کبھی تو مطلعِ دل سے ہو اتنی بارشِ اشک کہ تم بھی کھل کے برستے ہوئے کھرے…
Read Moreپت جھڑ میں کِھلتے گلاب ۔۔۔۔۔ جلیل عالی
پت جھڑ میں کِھلتے گلاب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شِفا نام تیرا تری ہر ہُمک۔جانِ لختِ جگر! زندگی کی گُمک ،فرح و آرام میرا شب و روز کی سر گرانی، غبارِ غمِ رایگانی جھٹکنے کی رَو میں یہی کام میرا کہ زنجیرِ معمول کو توڑ کر ، سوچ کے ہر سروکار کو چھوڑ کر میں ترے پاس آئوں تجھے پھول سا جھُولنے سے اُٹھائوں ترے ساتھ معصوم و بے ربط باتیں کروں اپنے اندر کا بالک جگائوں تری موہنی ، مست مُسکان کی چاندنی میں جِیئوں وقت کی دُھوپ سامانیاں ، سب پریشانیاں…
Read Moreبانی ۔۔۔۔ اک دھواں ہلکا ہلکا سا پھیلا ہوا ہے اُفق تا اُفق
اک دھواں ہلکا ہلکا سا پھیلا ہوا ہے اُفق تا اُفق ہر گھڑی اک سماں ڈوبتی شام کا ہے اُفق تا اُفق کس کے دل سے اڑیں ہیں سلگتے ہوئے غم کی چنگاریاں دوستو! شب گئے یہ اجالا سا کیا ہے اُفق تا اُفق ہجر تو روح کا ایک موسم سا ہے جانے کب آئے گا سرد تنہائیوں کا عجب سلسلہ ہے اُفق تا اُفق سینکڑوں وحشتیں چیختی پھر رہی تھیں کراں تا کراں آسماں نیلی چادر سی تانے پڑا ہے اُفق تا اُفق روتے روتے کوئی تھک کے چپ…
Read Moreحسرت موہانی ۔۔۔۔ چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانا یاد ہے باہزاراں اضطراب و صدہزاراں اشتیاق تجھ سے وہ پہلے پہل دل کا لگانا یاد ہے بار بار اُٹھنا اُسی جانب نگاہِ شوق کا اور ترا غرفے سے وہ آنکھیں لڑانا یاد ہے تجھ سے کچھ ملتے ہی وہ بیباک ہو جانا مرا اور ترا دانتوں میں وہ اُنگلی دبانا یاد ہے کھینچ لینا وہ مرا پردے کا کونا دفعتاً اور ڈوپٹے سے ترا وہ منہ چھپانا یاد ہے جان کر سوتا تجھے،…
Read Moreغزل ۔۔۔ سوچ کی دستک نہیں یادوں کی خوشبو بھی نہیں
سوچ کی دستک نہیں، یادوں کی خوشبو بھی نہیں زیست کے بے خواب گھر میں کوئی جگنو بھی نہیں نااُمیدی! تیرے گھیرائو سے ڈر لگنے لگا دھڑکنوں کے دشت میں اک چشمِ آہو بھی نہیں جسم کے حساس پودے کو نمو کیسے ملے قرب کی ٹھنڈی ہوا کیا، کرب کی لو بھی نہیں ہم سفر ہیں مصلحت کا خول سب پہنے ہوئے دوستی کیا اب کوئی تسکیں کا پہلو بھی نہیں ضبط کے گہرے سمندر کو تموج بخش دے پیار کی جلتی ہوئی آنکھوں میں آنسو بھی نہیں وقت نے…
Read More