احمد مشتاق … مل ہی جائے گا کبھی دل کو یقیں رہتا ہے

مل ہی جائے گا کبھی دل کو یقیں رہتا ہے وہ اسی شہر کی گلیوں میں کہیں رہتا ہے جس کی سانسوں سے مہکتے تھے در و بام ترے اے مکاں بول کہاں اب وہ مکیں رہتا ہے اک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے اور اب کوئی کہیں کوئی کہیں رہتا ہے روز ملنے پہ بھی لگتا تھا کہ جگ بیت گئے عشق میں وقت کا احساس نہیں رہتا ہے دل فسردہ تو ہوا دیکھ کے اس کو لیکن عمر بھر کون جواں کون حسیں رہتا ہے

Read More

فانی بدایونی…. ابتدائے عشق ہے لطف شباب آنے کو ہے

ابتدائے عشق ہے، لطف شباب آنے کو ہے صبر رخصت ہو رہا ہے، اضطراب آنے کو ہے قبر پر کس شان سے وہ بے نقاب آنے کو ہے آفتاب صبح محشر ہم رکاب آنے کو ہے مجھ تک اس محفل میں پھر جام شراب آنے کو ہے عمر رفتہ پلٹی آتی ہے، شباب آنے کو ہے ہائے کیسی کشمکش ہے یاس بھی ہے آس بھی دم نکل جانے کو ہے، خط کا جواب آنے کو ہے خط کے پرزے نامہ بر کی لاش کے ہم راہ ہیں کس ڈھٹائی سے…

Read More

احمد فراز ۔۔۔ دوست بن کر بھی نہیں ساتھ نبھانے والا

دوست بن کر بھی نہیں ساتھ نبھانے والا وہی انداز ہے ظالم کا زمانے والا اب اسے لوگ سمجھتے ہیں گرفتار مرا سخت نادم ہے مجھے دام میں لانے والا صبح دم چھوڑ گیا نکہتِ گل کی صورت رات کو غنچۂ دل میں سمٹ آنے والا کیا کہیں کتنے مراسم تھے ہمارے اس سے وہ جو اک شخص ہے منہ پھیر کے جانے والا تیرے ہوتے ہوئے آ جاتی تھی ساری دنیا آج تنہا ہوں تو کوئی نہیں آنے والا منتظر کس کا ہوں ٹوٹی ہوئی دہلیز پہ میں کون…

Read More

رسا چغتائی ۔۔۔ کچھ نہ کچھ سوچتے رہا کیجے

کچھ نہ کچھ سوچتے رہا کیجے آسماں دیکھتے رہا کیجے چار دیواریٔ عناصر میں کودتے پھاندتے رہا کیجے اس تحیر کے کارخانے میں انگلیاں کاٹتے رہا کیجے کھڑکیاں بے سبب نہیں ہوتیں تاکتے جھانکتے رہا کیجے راستے خواب بھی دکھاتے ہیں نیند میں جاگتے رہا کیجے فصل ایسی نہیں جوانی کی دیکھتے بھالتے رہا کیجے آئنے بے جہت نہیں ہوتے عکس پہچانتے رہا کیجے زندگی اس طرح نہیں کٹتی فقط اندازتے رہا کیجے نا سپاسانِ علم کے سر پہ پگڑیاں باندھتے رہا کیجے

Read More

ہاجر دہلوی

ہاجر دہلوی (رگو ناتھ سنگھ) ہاجر دہلوی 30 اکتوبر 1884 کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ ان اصل نام رگھوناتھ سنگھ تھا۔  ہاجر کاخاندان دہلی کا ایک معزز اور علم دوست خاندان تھا۔ ہاجر کے دادا منشی سردار سنگھ عربی اور فارسی زبان کے جید عالم تھے، فارسی زبان میں شعر بھی کہتے تھے،  حسیب تخلص کرتے تھے۔ ان کا فارسی شاعری کا ایک دیوان بھی شائع ہوا۔ حسیب نثر نگار بھی تھے۔ ’’روشنی‘‘ اور ’’خانہ آباد ‘‘ دو اسٹیج ڈرامے بھی لکھے۔ ہاجر کی ابتدائی تعلیم دہلی میں ہوئی۔ فارسی…

Read More

جون ایلیا ۔۔۔ اپنے سب یار کام کر رہے ہیں

اپنے سب یار کام کر رہے ہیں اور ہم ہیں کہ نام کر رہے ہیں تیغ بازی کا شوق اپنی جگہ آپ تو قتل عام کر رہے ہیں داد و تحسین کا یہ شور ہے کیوں ہم تو خود سے کلام کر رہے ہیں ہم ہیں مصروفِ انتظام مگر جانے کیا انتظام کر رہے ہیں ہے وہ بے چارگی کا حال کہ ہم ہر کسی کو سلام کر رہے ہیں ایک قتالہ چاہیے ہم کو ہم یہ اعلانِ عام کر رہے ہیں کیا بھلا ساغرِ سفال کہ ہم ناف پیالے…

Read More

قابل اجمیری

احباب کے فریبِ مسلسل کے باوجود کھنچتا ہے دل خلوص کی آواز پر ابھی

Read More

ہاجر دہلوی … جب کسی کا خیال آتا ہے

جب کسی کا خیال آتا ہے دل میں غم کا ابال آتا ہے یوں ہی فرقت میں عمر گزرے گی کب پیامِ وصال آتا ہے آپ باتوں میں ٹال دیتے ہیں وصل کا جب سوال آتا ہے کل جسے بزم سے نکالا تھا پھر وہی خستہ حال آتا ہے پھیکا پھیکا ہے چاند گردوں پر کون رشکِ ہلال آتا ہے ہائے اس بت نے بے وفائی کی صرف اتنا خیال آتا ہے دل لگی کے سوا تجھے‘ ہاجر! اور بھی کچھ کمال آتا ہے

Read More

نظام رامپوری … انگڑائی بھی وہ لینے نہ پائے اٹھا کے ہاتھ

انگڑائی بھی وہ لینے نہ پائے اٹھا کے ہاتھ دیکھا جو مجھ کو چھوڑ دیے مسکرا کے ہاتھ بے ساختہ نگاہیں جو آپس میں مل گئیں کیا منہ پر اس نے رکھ لیے آنکھیں چرا کے ہاتھ یہ بھی نیا ستم ہے حنا تو لگائیں غیر اور اس کی داد چاہیں وہ مجھ کو دکھا کے ہاتھ بے اختیار ہو کے جو میں پاؤں پر گرا ٹھوڑی کے نیچے اس نے دھرا مسکرا کے ہاتھ گر دل کو بس میں پائیں تو ناصح تری سنیں اپنی تو مرگ و زیست…

Read More

محمد علوی … دھوپ نے گزارش کی

دھوپ نے گزارش کی ایک بوند بارش کی لو گلے پڑے کانٹے کیوں گلوں کی خواہش کی جگمگا اٹھے تارے بات تھی نمائش کی اک پتنگا اجرت تھی چھپکلی کی جنبش کی ہم توقع رکھتے ہیں اور وہ بھی بخشش کی لطف آ گیا علوی واہ خوب کوشش کی

Read More