شاہین عباس ۔۔۔   اے تصویر انسان​

اے تصویر انسان​ (۱) کوئی کوئی دن سمے کی دھار پہ ایسا بھی آ جاتا ہے اچھی بھلی نبضوں پر چلتی گھڑ یاں کام نہیں کرتیں کبھی کبھی کا جھونکا سا دن کئی کئی دن چلتا ہے سِن اندرسِن سال اندرسال قرنوں اندر قرن الٹتا قرن پلٹتا بارہ گھنٹوں کے چکر میں ، چلتا اور چکراتا گولا جسم ہیولوں سا اک چولا دانہ چگتا دن ، جب گنبد گنبد چکر کاٹتا ہے ، تو جیسے دنیا کے نقشے پر گندم کی سب بالیاں گھیرے میں لے لیتا ہے دن جیسے…

Read More

سعید دوشی ۔۔۔ کوکھ جلا سیارہ​

کوکھ جلا سیارہ​ یہ سیارہ جو بالکل بیضوی کشکول جیسا ہے گلوبی گردشیں ساری ہمیشہ سے اسی کے گرد گھومی ہیں جو مقناطیس، مقناطیسیت سے ہاتھ دھو بیٹھیں تو پھر کمپاس کیا سمتیں بتائیں یہاں دل ہی نہیں گھٹتا بدن کا وزن بھی تفریق در تفریق ہوتا مثبتوں سے منفیوں کے دائروں میں گھومتا محسوس ہوتا ہے مسلسل گردشوں پر گر کوئی نظریں جمائے گا تو پھر چکر تو آئیں گے یہاں املی نہیں ملتی فقط ناپید جیون ہی کے کچھ آثار ملتے ہیں گہر ہونے کی خواہش میں برسنے…

Read More

گوشۂ حامد یزدانی (ماہنامہ بیاض لاہور ستمبر 2023)

Read More

افضل گوہر … نظم

نظم۔۔۔۔۔وصل کے جلتے دِیوں کی آنکھ میں اتری گلابی روشنیرات کی میلی سیاہی میں پڑی لمبی دراڑباہمی لذت بھری سرگوشیاںاور پھر خاموشیاںمطمئن ہوتے شکن آلود جسمانتہائی انبساطرفتہ رفتہ صبح کی پہلی کرن نے جاگ کر انگڑائی لیتیرگی نے دیکھنے کو روشنی کی آنکھ سے بینائی لیپیڑ پر بیٹھے پرندوں کی نگاہیں صحن پر مرکوز تھیںدانہ دانہ اُس کی زلفوں سے وفا کا باجرہ گرنے لگاوہ نہا کر آئی تو اتنی نشیلی ہو گئیبارشوں سے دن کی ساری دھوپ گیلی ہو گئی

Read More

توقیر عباس… نظم

عکس اور تحریریں ذہنوں میں جگہ بناتے ہیں وبا کے بعد ان کا بھرپور تجربہ ہوا چھینکتے پہلے بھی تھے کوئی ہم کو یاد کرتا ہے ، یہ تصور ابھرتا تھا مگر اب چھینک کی آواز خطرے کے الارم کی طرح لگتی ہے کھانستے پہلے بھی گلے کی خراش یا گھی کی پھانس سمجھتے تھے چائے پیتے گڑ کھاتے اور مزے اڑاتے تھے مگر اب کھانسی کی آواز ایمبولینس کے بلاوے کا نمبر ڈائل کرتی محسوس ہوتی ہے بخار پہلے بھی ہوا کرتا تھا رضائی اور لحاف میں قرنطینہ کرتے…

Read More

معین ناصر ۔۔۔ زندگی بھر خزاؤں میں رہنا

زندگی بھر خزاؤں میں رہنا کس لیے بے وفاؤں میں رہنا جا رہا ہوں ترے نگر سے، مجھے اب نہیں ان خداؤں میں رہنا مار ڈالے گی غم کی ارزانی کم کرو انتہاؤں میں رہنا یہ غزل آخری سمجھ کے سنو اور سیکھو بلاؤں میں رہنا اچھا لگتا ہے، ہر گھڑی ناصر یوں کسی کی دعاؤں میں رہنا

Read More

گلزار ۔۔۔ صبح صبح اٹھتے ہی ۔۔۔۔۔

Read More

فرید جاوید ۔۔۔ منزلیں دور راستے موہوم

Read More

اشارے ۔۔۔ منیر نیازی

 اشارے ۔۔۔۔۔۔ شہر کے مکانوں کے سرد سائبانوں کے دل رُبا، تھکے سائے خواہشوں سے گھبرائے رہرووں سے کہتے ہیں رات کتنی ویراں ہے موت بال افشاں ہے اس گھنے اندھیرے میں خواہشوں کے ڈیرے میں دل کے چور بستے ہیں ان کے پاس جانے کے لاکھ چور رستے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجموعہ کلام: تیز ہوا اور تنہا پھول

Read More

بہار کی واپسی ۔۔۔ خلیل الرحمن اعظمی

بہار کی واپسی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں چپ چاپ بیٹھا ہوں اس رہگزر پر یہی سوچتا ہوں کہ خط لانے والا کہیں آج بھی کہہ نہ دے: کچھ نہیں ہے یہ کیا بات ہے لوگ اک دوسرے سے جدا ہو کے یوں جلد ہیں بھول جاتے وہ دن رات کا ساتھ ہنسنا ہنسانا وہ باتیں جنھیں غیر سے کہہ نہ پائیں اچھوتے سے الفاظ جو شاہراہوں پہ آتے ہوئے دیر تک ہچکچائیں کچھ الفاظ کے پھول جو اس چمن میں کھلے تھے جسے محفلِ دوش کہیے جو کچھ دیر پہلے ہی برہم…

Read More