محمد علوی … دھوپ نے گزارش کی

دھوپ نے گزارش کی ایک بوند بارش کی لو گلے پڑے کانٹے کیوں گلوں کی خواہش کی جگمگا اٹھے تارے بات تھی نمائش کی اک پتنگا اجرت تھی چھپکلی کی جنبش کی ہم توقع رکھتے ہیں اور وہ بھی بخشش کی لطف آ گیا علوی واہ خوب کوشش کی

Read More

حفیظ جونپوری ۔۔۔ ہوئے عشق میں امتحاں کیسے کیسے

ہوئے عشق میں امتحاں کیسے کیسے پڑے مرحلے درمیاں کیسے کیسے رہے دل میں وہم و گماں کیسے کیسے سَرا میں ٹِکے کارواں کیسے کیسے گھر اپنا غم و درد سمجھے ہیں دل کو بنے میزباں‘ میہماں کیسے کیسے شبِ ہجر باتیں ہیں دیوار و در سے ملے ہیں مجھے رازداں کیسے کیسے دکھاتا ہے دن رات آنکھوں کو میری سیاہ و سفید آسماں کیسے کیسے جو کعبے سے نکلے‘ جگہ دیر میں کی ملے ان بتوں کو مکاں کیسے کیسے فرشتے بھی گھائل ہیں تیرِ ادا کے نشانہ ہوئے…

Read More

ماہ نامہ بیاض ، لاہور ۔۔۔۔ اگست 2023 ۔۔۔ فہرست

Read More

قمر جلالوی ۔۔۔ بھلا اپنے نالوں کی مجھ کو خبر کیا شبِ غم ہوئی تھی کہاں تک رسائی

بھلا اپنے نالوں کی مجھ کو خبر کیا شبِ غم ہوئی تھی کہاں تک رسائی مگر یہ عدو کی زبانی سنا ہے بڑی مشکلوں سے تمہیں نیند آئی شبِ وعدہ اول تو آتے نہیں تھے جو آئے بھی تو رات ایسی گنوائی کبھی رات کو تم نے گیسو سنوارے کبھی رات کو تم نے مہندی لگائی گلہ بے وفائی کا کس سے کریں ہم ہمارا گلہ کوئی سنتا نہیں ہے خدا تم کو رکھے جوانی کے دن ہیں تمھارا زمانہ تمھاری خدائی ہر اک نے دیے میرے اشکوں پہ طعنے…

Read More

مظفر حنفی ۔۔۔ اس روشنیِ طبع نے دھوکا دیا ہمیں

اس روشنیِ طبع نے دھوکا دیا ہمیں اپنے لہو کی آنچ نے جھلسا دیا ہمیں کیوں اتنے چھوٹے خود کو نظر آ رہے ہیں ہم یارب یہ کس مقام پہ پہنچا دیا ہمیں آئے تھے خالی ہاتھوں کو پھیلائے ہم یہاں دنیا نے خالی ہاتھ ہی لوٹا دیا ہمیں ٹھنڈی ہوا نے توڑ دیا تھا درخت سے پھر گرد باد آئے سہارا دیا ہمیں زخمی ہوئے تھے جنگ میں دشمن کے وار سے احباب نے تو زندہ ہی دفنا دیا ہمیں کاغذ کی ناؤ پر تھے ہمیں ڈوبنا ہی تھا…

Read More

مرزا اسداللہ خاں غالب ۔۔۔ غزل

بزمِ شاہنشاہ میں اشعار کا دفتر کھلا رکھیو یارب یہ درِ گنجینۂ گوہر کھلا شب ہوئی، پھر انجمِ رخشندہ کا منظر کھلا اِس تکلف سے کہ گویا بتکدے کا در کھلا گرچہ ہوں دیوانہ، پر کیوں دوست کا کھاؤں فریب آستیں میں دشنہ پنہاں ، ہاتھ میں نشتر کھلا گو نہ سمجھوں اس کی باتیں ، گونہ پاؤں اس کا بھید پر یہ کیا کم ہے کہ مجھ سے وہ پری پیکر کھلا ہے خیالِ حُسن میں حُسنِ عمل کا سا خیال خلد کا اک در ہے میری گور کے…

Read More

ڈاکٹر اختر شمار ۔۔۔۔ میرا دشمن بھی خاندانی ہو

Read More

جلیل عالی ۔۔۔ دلوں میں آرزو کیا کیا حسیں پیکر بناتی ہے

دلوں میں آرزو کیا کیا حسیں پیکر بناتی ہے مگر فطرت کہاں سب نقش لوحوں پر بناتی ہے پَروں میں مضطرب کن آسمانوں کی اڑانیں ہیں تمنا کس بہشتِ شوق کے منظر بناتی ہے جہانِ دل میں کیا کیا اشتیاق آباد ہیں دیکھیں نگاہِ لطف اُس کی اب کہاں محشر بناتی ہے یہاں خوشبو کی صورت روز و شب کی دھڑکنوں میں جی یہ دنیا ریت کرنے کے لئے پتھر بناتی ہے فرازِ وقت سے اُس کو صدا دینے تو دے عالی ہوا پھر دیکھ دیوارو ں میں کتنے در…

Read More

سید آل احمد ۔۔۔ ہم اہلِ دل نے نہ دیکھے بسنت کے لمحے

ہم اہلِ دل نے نہ دیکھے بسنت کے لمحے کھلے نہ پھول کبھی خواب میں بھی سرسوں کے عجیب مرد تھے زنجیرِ کرب پہنے رہے کنارِ شوق کسی شاخِ  گل کو چھو لیتے اُفق پہ صبح کا سورج طلوع ہوتا ہے ستارے ڈوب چکے‘ مشعلیں بجھا دیجے مرے خدا ! مری دھرتی کی آبرو رکھ لے ترس گئی ہیں نئی کونپلیں نمو کے لیے مری وفا کے گھروندے کو توڑنے والے! خدا تجھے بھی اذیت  سے ہمکنار کرے بجھی نہ پیاس کبھی تجربوں کے صحرا میں تمام عمر سفر میں…

Read More

معین ناصر ۔۔۔ تھا کوئی خوف، لیکن واہموں جیسا

تھا کوئی خوف، لیکن واہموں جیسا وہ حال اپنا برستے بادلوں جیسا کوئی بھی اس مکاں میں اب نہیں رہتا زمیں پر کیا ہوا ہے حادثوں جیسا بکھرنے جو نہیں دیتا مجھے، ایسا ہے کیا ماں کی دعا میں حوصلوں جیسا وہی ہیں خون کے رشتے،وہی گھر ہے مگر ہے درمیاں کچھ فاصلوں جیسا کہانی میں سفر کی درج ہے ناصر سڑک پر کچھ پڑا تھا آبلوں جیسا

Read More