آپ کی میری کہانی ایک ہے کہیے اب میں کیا سناؤں، کیا سنوں
Read MoreTag: غزل
سیماب اکبر آبادی
عمرِ دراز مانگ کے لائے تھے چار دن دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
Read Moreسید آل احمد ۔۔۔ ہمارے گھر کے آنگن میں گھٹا کس روز آئے گی
ہمارے گھر کے آنگن میں گھٹا کس روز آئے گی سکوتِ شامِ ویرانی بتا‘ کس روز آئے گی بہت دن ہو گئے ہم پر کوئی پتھر نہیں آیا شکستِ شیشۂ دل کی صدا کس روز آئے گی دُکھوں کے جلتے سورج کی تمازت جان لیوا ہے مرے حصے میں خوشیوں کی ردا کس روز آئے گی مسلسل حبسِ قید ِلب سے دم گھٹنے لگا اب تو اسیرانِ قفس! تازہ ہوا کس روز آئے گی مری پلکوں پہ ظرفِ ربِ مفلس جھلملاتا ہے مری ماں جب یہ کہتی ہے‘ دوا کس…
Read Moreسید آل احمد ۔۔۔ زرد جذبے ہوں تو کب نشوونما ملتی ہے
زرد جذبے ہوں تو کب نشوونما ملتی ہےفن کو تہذیب کی بارش سے جِلا ملتی ہے سر میں سودا ہے تو چاہت کے سفرپر نکلیںکرب کی دھوپ طلب سے بھی سوا ملتی ہے کون سی سمت میں ہجرت کا ارادہ باندھیںکوئی بتلائے کہاں تازہ ہوا ملتی ہے چاند چہرے پہ جواں قوسِ قزح کی صورتتیری زُلفوں سے گھٹاؤں کی ادا ملتی ہے ہم تو پیدا ہی اذیت کے لیے ہوتے ہیںہم فقیروں سے تو دُکھ میں بھی دُعا ملتی ہے کتنا دُشوار ہے اب منزلِ جاناں کا سفرخواہش قربِ بدن…
Read Moreمعین ناصر ۔۔۔ تھا کوئی خوف، لیکن واہموں جیسا
تھا کوئی خوف، لیکن واہموں جیسا وہ حال اپنا برستے بادلوں جیسا کوئی بھی اس مکاں میں اب نہیں رہتا زمیں پر کیا ہوا ہے حادثوں جیسا بکھرنے جو نہیں دیتا مجھے، ایسا ہے کیا ماں کی دعا میں حوصلوں جیسا وہی ہیں خون کے رشتے،وہی گھر ہے مگر ہے درمیاں کچھ فاصلوں جیسا کہانی میں سفر کی درج ہے ناصر سڑک پر کچھ پڑا تھا آبلوں جیسا
Read Moreمرزا جعفر علی خاں اثر لکھنوی
ہم نے رو رو کے رات کاٹی ہے آنسوئوں پر یہ رنگ تب آیا
Read Moreدانش عزیز ۔۔۔ ہوجائیں کسی کے جو کبھی یار مُنافق
ہوجائیں کسی کے جو کبھی یار مُنافق سمجھو کہ ہوئے ہیں دَر و دیوار مُنافق بَن جاتا ہے کیسے کوئی سَالار مُنافق یہ بات سمجھنے کو ہے دَرکار مُنافق مُمکن تھا کبھی اُن کو میں خاطر میں نہ لاتا ہوتے جو مقابل مرے دو چار مُنافق اِ ن کو کسی بازار سے لانا نہیں پَڑتا یاروں میں ہی مل جاتے ہیں تَیّار مُنافق ناپید ہوا جاتا ہے اِخلاص یہاں پَر سَر دار مُنافق ہے سرِ دار مُنافق جو شَخص مُنافق ہے , مُنافق ہی رہے گا اِک بار مُنافق ہو…
Read Moreمبشر سعید ۔۔۔۔ شاخ پہ رنج نمودار نہیں ہو سکتا
کسی منظر نہ کسی جسم کی عریانی سے آنکھ حیران ہے خوابوں کی فراوانی سے جس طرح پیاس میں پانی کا میسر آنا میں تمھیں دیکھ رہا ہوں اُسی حیرانی سے آگ اور تیز ہوا دل کو لُبھاتے ہیں مگر گہے مٹی سے میں ڈرتا ہوں گہے پانی سے باغ میں وقت بِتانے سے یہ ہوتا ہے کہ دل جھومنے لگتا ہے نغموں کی فراوانی سے جہاں رہتے ہیں مرے جان سے پیارے مرشد پیار کرتا ہوں اُسی خطہِ بارانی سے بات دنیا کو عقیدت سے بتاؤ کہ سعید چین…
Read Moreڈاکٹر عابد سیال ۔۔۔ رُکو، وہم و شبہات کا وقت ہے
رُکو، وہم و شبہات کا وقت ہے کہاں جائو گے، رات کا وقت ہے کسی بھاری پتھر تلے دے کے دل یہ تخفیفِ جذبات کا وقت ہے بدلنے پہ اس کے نہ یوں رنج کر یہ معمولی اوقات کا وقت ہے یہ کیا دل میں ریزہ رڑَکنے لگا ابھی تو شروعات کا وقت ہے گلے خشک، پیشانیاں تر بتر عمل کے مکافات کا وقت ہے
Read Moreاحسان شاہ …. کبھی تو یوں مرے دل کو دماغ، مشورہ دے
کبھی تو یوں مرے دل کو دماغ، مشورہ دے کسی عقاب کو گویا کہ زاغ ،مشورہ دے مرے علاوہ نہیں ہے کوئی یہاں جو مجھے زمیں کو دشت بنائوں کہ باغ ،مشورہ دے مرے ندیم! میں مفلوج ہونے والا ہوں ملے فراغ سے کیسے فراغ ،مشورہ دے امیرِ لشکرِ مغلوب! اب کہاں جائیں مٹائیں خود کو یا رہنے دیں داغ،مشورہ دے علیمِ وقت! نہیں ہے تمیزِ لیل و نہار میں کب جلائوں بجھائوں چراغ ،مشورہ دے
Read More